الحمد للہ.
مسلمان كے ليے اصل يہى ہے كہ وہ اللہ كے احكامات ميں اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كرے اور جس چيز سے اللہ نے منع كيا ہے اس سے ركا جائے، چائے اس ميں اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم اور ممانعت كى حكمت ظاہر ہو يا ظاہر نہ ہو.
اور مسلمان كے ليے شرعى حكم سے انكار كرنا جائز نہيں، اور اگر اس حكم كى حكمت ظاہر نہ بھى ہو تو مسلمان كے ليے اس حكم كو نافذ كرنے اور اسے تسليم اور اس پر عمل كرنے سے توقف كرنا بھى جائز نہيں ہے؛ بلكہ جب بھى نص ثابت ہو تو حلت و حرمت ميں شرعى حكم كو قبول كرنا چاہيے؛ چاہے اس كى حكمت اس كى سمجھ ميں آئے يا نہ آئے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ( ديكھو ) كسى مومن مرد و عورت كو اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے فيصلہ كے بعد اپنے كسى امر كا كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، ( ياد ركھو ) اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى جو بھى نافرمانى كريگا وہ صريح گمراہى ميں پڑيگا الاحزاب ( 36 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:
ايمان والوں كا قول تو يہ ہے كہ جب انہيں اس ليے بلايا جاتا ہے كہ اللہ تعالى اور اس كا رسول ان ميں فيصلہ كر دے تو وہ كہتے ہيں كہ ہم نے سنا اور مان ليا، يہى لوگ كامياب ہونے والے ہيں النور ( 51 ).
دين اسلام ميں خنزير كا گوشت نص قرآنى كے ساتھ حرام كيا گيا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تم پر حرام كيا گيا ہے مردار اور خون اور خنزير كا گوشت اور جس پر اللہ كے سوا دوسرے كا نام پكارا گيا ہو البقرۃ ( 173 ).
اور ايك دوسرى آيت ميں بھى اس طرح فرمايا:
تم پر حرام كيا گيا ہے مردار اور خون اور خنزير كا گوشت اور جس پر اللہ كے سوا دوسرے كا نام پكارا گيا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو اور جو كسى كے سينگ مارنے سے مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو، ليكن اسے تم ذبح كر ڈالو تو حرام نہيں المآئدۃ ( 3 ).
مسلمان كے ليے اسے كسى بھى حالت ميں تناول كرنا مباح نہيں، ليكن صرف اس ضرورت ميں جس ميں انسان كى زندگى اس كے تناول كرنے پر موقوف ہو كہ اس كے پاس كچھ نہيں اور اگر خنزير كا گوشت نہ كھائے تو مرنے كى نوبت ہو تو صرف جان بچانے كے ليے شرعى قاعدہ " ضروريات ممنوع كو مباح كر ديتى ہيں " كے مطابق تناول كر سكتا ہے.
شرعى نصوص ميں خنزير كے گوشت كى حرمت درج ذيل علت كے علاوہ كوئى علت وارد نہيں:
فرمان بارى تعالى ہے:
يہ نجس ہے .
اور رجس كا اطلاق اس پر ہوتا ہے جسے شريعت اور فطرت سليمہ اسے قبيح جانے، يہى ايك علت كافى ہے، اور اس كے علاوہ ايك عام علت بھى آئى ہے جو كھانے پينے والى عام اشياء ميں ہے جو خنزير كى حرمت كى طرف ہمارى راہنمائى كرتى ہے، اور وہ علت درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں بيان ہوئى ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور ان كے ليے پاكيزہ اشياء حلال كرتا اور ان پر خبيث اور گندى اشياء حرام كرتا ہے الاعراف ( 157 ).
عموم كے لحاظ سے علت خنزير كے گوشت كى حرمت كو بھى شامل ہے، اور يہ فائدہ ديتى ہے كہ يہ خنزير شريعت اسلاميہ كى نظر ميں من جملہ خبيث اور گندى اشياء ميں شامل ہوتا ہے.
اس مقام پر خبائث اور گندى اشياء سے مراد وہ اشياء ہيں جو انسان كى صحت يا اس كے مال يا اخلاق كے ليے مضر اور نقصاندہ ہيں، چنانچہ جو چيز كسى بھى اعتبار سے انسان كى زندگى كے ليے مضر ہو اور اس كے نتائج غلط ہوں تو يہ خبائث كے عموم ميں شامل ہونگى.
علمى اور طبى سرچ سے ثابت ہو چكا ہے كہ سب جانوروں ميں سے خنزير ہى ايك ايسا جانور جو انسان كے جسم كے ليے نقصاندہ اور مضر جراثيم كا سٹور ہے، ان نقصانات اور بيماريوں كى فہرست بہت طويل ہے ذيل ميں ہم اختصار كے ساتھ پيش كرتے ہيں:
طفيلى امراض، بيكٹيرى امراض، وائرسى امراض، جرثومى امراض وغيرہ.
يہ اور دوسرے امراض اس كى دليل ہيں كہ حكيم شارع نے خنزير كا گوشت كھانا حرام كيا ہے تو اس ميں بڑى عظيم حكمت ہے، وہ يہ كہ جان كى حفاظت كى جا سكے، جو شريعت ميں ضروريات خمس ميں سے ايك ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 751 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
اور جواب نمبر ( 26792 ) كے جواب ميں تعبدى اور معقول المعنى احكام كے متعلق بہت اہم تفصيل بيان كى گئى ہے.
واللہ اعلم .