الحمد للہ.
اول:
ہم متنبہ كرتےہيں كہ مصنوعي تلقيح كے عمل ميں بہت سے مفاسد پائے جاتے ہيں، اور بہت سے اطباء وڈاكٹروں سے يہ ثابت ہوچكا ہے كہ وہ جان بوجھ كر مرد كا مادہ منويہ كسي دوسرے شخص كےمادہ سے تبديل كرديتے ہيں يہ سب كچھ خبث نفسي كي بنا پر يا پھرمادہ منويہ ميں اسے يقين ہوتا ہے كہ اس ميں بچہ پيدا كرنے كي صلاحيت نہيں جو اسے مال بٹورنے كا لالچ پيدا كرےگا .
اور يہ بھي ثابت ہوچكا ہے كہ بہت سارے ہسپتالوں ميں مادہ منويہ كے نمونوں ميں بدلنے كي غلطياں ہوئي ہيں، اس وجہ سے علماء كرام نے اس معاملہ ميں بہت سختي كي اور مادہ منويہ كومحفوظ كركے عورت كےرحم ميں مادہ دير سے ركھنے كي حالت ميں جائز قرار نہيں ديا، اور كچھ علماء كرام نے تو مطلقا حرام قرار ديا ہے كيونكہ اس ميں غلطي كا احتمال پايا جاتا ہے جس كي بنا پر نسب ناموں ميں اختلاط كا پايا جانا اور بہت سے مفاسد و ممنوعات كا پايا جانا ہے .
دوم:
يہ چيك اپ كروانا ضرورت ميں سے نہيں حتي كہ اس كي وجہ سے مرد اوراس كي بيوي روزہ نہ ركھے، اسے رات تك مؤخر بھي كيا جاسكتا ہے يا پھر رمضان المبارك كےبعد تك مؤخر كرديں .
آپ كويہ نصيحت كي جاتي ہے كہ اللہ تعالي كي تقدير پر صبر كريں اور اولاد كےحصول كےليے شرعي اسباب حاصل كريں، اور آپ مصنوعي طريقہ سے اولاد كےحصول پرمصر ہوں توپھر مادہ منويہ كےنمونے كي شديد ديكھ بھال كريں اور اسے فوري طور پر عورت كےرحم ميں كسي دين والي ثقہ ليڈي ڈاكٹر سے ركھوائيں اور رمضان المبارك ميں دن كےوقت ايسا كرنے سے اجتناب كريں كيونكہ يہ كوئي اضطراري حالت نہيں .
واللہ اعلم .