سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

مشت زنی کے حکم سے لاعلمی میں ارتکاب

سوال

اللہ تعالی نے مجھ پراحسان کیا میں نے ایک برس قبل توبہ کرلی ۔۔۔ آج ميں نے سنا کہ مشت زنی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، مجھے پہلے اس کا علم نہیں تھا ۔۔ میں گزشتہ رمضان سے قبل اس کا ارتکاب بھی کیا تھا ۔۔ اب مجھے علم نہیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ؟
آپ کے علم میں یہ بھی ہونا چاہیے کہ میں نہيں جانتا کہ یہ گناہ کتنے ایام کیا ہے ۔۔ مجھے معلومات سے نواز کرمستفید فرمائیں کہ مجھے اپنے فعل پر کیا کرنا ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول :

اس اللہ کی تعریف ہے جس نے آپ کوتوبہ کرنے کی توفیق دی اوراحسان کیا ہم اللہ تعالی سے دعا گوہيں کہ وہ آپ کی توبہ قبول فرمائے اورآپ کے گناہ معاف کرے اورآپ کورشدوھدایت سے نوازے ۔

دوم :

روزے کوتوڑنے والی اشیاء کےحکم سے جاہل ہوتےہوئے ارتکاب کرنے والے کے بارہ میں علماء کرام کا اختلاف ہے کہ آيا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں ؟ اس میں دوقول ہیں :

پہلا قول : اس سے اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا ، امام شافعی ، امام احمد کا یہی مذھب ہے ، لیکن امام شافعی نے اس سے نئے مسلمان کومستثنی کیا ہے یا پھر ایسے شخص کو جودیھاتی ہو اوروہیں پرورش پائي ہو اوراہل علم سے دور رہتا ہوتواس کا روزہ فاسد نہيں ہوگا ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی المجموع میں کہتے ہیں :

جب روزہ دارکھانے پینے اورجماع کے حکم سے جاہل ہونے کی بنا پرکھا پی لیے یا جماع کرلے ، اگر تو وہ نیا مسلمان ہو یا پھر دو دیہات میں پرورش والا ہو جس پریہ مخفی ہوکہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا ، اس لیے وہ بھول جانے والے شخص کے مشابہ ہونے کی بنا پرگنہگار نہيں ہوگا ، اس میں نص بھی وارد ہے ۔

اوراگر وہ شخص مسلمانوں سے میل جول رکھنے والا ہوکہ اس پر اس کے حرام ہونے کا حکم مخفی نہ ہو تواس کا روزہ ٹوٹ جائے گا ، کیونکہ وہ کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے ۔ اھـ المجموع للنووی ( 6 / 352 ) ۔

دیکھیں المغنی لابن قدامۃ المقدسی ( 4 / 368 ) اور الکافی ( 2 / 244 ) ۔

مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) کے علماءکرام نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے ، لجنۃ الدائمۃ مندرجہ ذیل سوال کیا گيا کہ :

جس نے رمضان میں دن کے وقت مشت زنی کرلی اوراسے اس کے حرام کا ہونے کا علم نہ ہو اورنہ ہی اسے ان ایام کا علم ہوجس میں وہ اس کا مرتکب ہوا تھا اس کا کیا حکم ہے ؟

کمیٹی کا جواب تھا :

اس گندی عادت کی بنا پرتوڑے ہوئے روزں کی قضاء کرنی واجب ہے کیونکہ مشت زنی سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے ، اوراسے ان ایام کی کوجاننے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں روزہ توڑا تھا ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 258 ) ۔

دوسرا قول : اس سے روزہ فاسد نہيں ہوتا جس طرح کہ بھولنے والے کا روزہ فاسد نہيں ہوتا ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ اورحافظ ابن قیم رحمہمااللہ تعالی نے بھی یہی قول اختیارکیا ہے :

شیخ الاسلام ” الفتاوی الکبری ” میں کہتے ہیں :

روزے دارنے اگر کوئي روزہ توڑنے والا کام اس کی حرمت سے جاہل ہونے کی بنا پر کرلیا توکیا اسے روزہ دوبارہ رکھنا ہوگا ؟

امام احمد کے مسلک میں دو قول ہیں : زيادہ صحیح اورظاہریہی ہے کہ اس سے قضاءواجب نہیں ہوگي ، اورخطاب توابلاغ کے بعدہوتا ہے اس لے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

تا کہ میں تمہیں اس کے ساتھ ڈراؤں اورجسے یہ پہنچے ۔

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :

ہم اس وقت تک عذاب نہيں دیتے جب تک کہ رسول نہ مبعوث کردیں

اوراس لیے بھی کہ اللہ تعالی نے فرمایا :

تا کہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ تعالی کے خلاف کوئي دلیل نہ رہے ۔

اس طرح کی کئی ایک آيات قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں اللہ تعالی نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ کسی ایک کواس وقت تک سزا نہيں دیتا اورنہ ہی اس کا محاسبہ کرتا ہے جب تک کہ اس کے پاس رسول کا لایا ہوا دین نہ پہنچ جائے ۔

اورجس کویہ علم ہوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کےرسول ہیں اوروہ اس پر ایمان لے آيا لیکن وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائي ہوئي اکثر اشیاء کا علم نہ رکھے تواللہ تعالی اسے اس چيزکی سزا نہيں دے گا جواسے پہنچی ہی نہیں ۔

کیونکہ جب اللہ تعالی بلوغت کےبعد ترک ایمان پراسے سزا نہيں دیتا توپھر اس کی بعض شرائط پربھی ابلاغ سے قبل سزانہ دینا اولی ہوگا ، اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بھی اس جیسی مثالیں ملتی ہیں ۔

صحیحین میں یہ بات ثابت ہے کہ صحابہ کرام میں سے کچھ نے اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان :

سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے سے سفید اورسیاہ رسی گمان کی اوران میں ایک صحابی اپنی ٹانگ سے یہ رسی باندھ کرکھاتا پیتا تھا حتی کہ سفید سیاہ سے ظاہر ہوجاتا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےلیے یہ بیان کیا کہ اس سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی سیاہی ہے ، لیکن اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا ۔اھـ

دیکھیں : الفتاوی الکبری لابن تیمیہ ( 2 / 19 ) ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب ” اعلام الموقعین ” میں کہتے ہیں :

اورانہوں ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم )نے رمضان میں دن کے وقت عمدا کھانے پینے والے شخص جس نے سفید اورسیاہ دھاگے کی تاویل رسی سے کی تھی اورسفید رسی کے ظاہر ہونے تک کھاتا رہا حالانکہ دن طلوع ہوچکا تھا لیکن اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کردیا اوراس کی تاویل کی وجہ سے قضاء کا نہیں کہا ۔ اھـ

دیکھیں اعلام الموقعین لابن قیم ( 4 / 66 ) ۔

شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی سے ایسے نوجوان کے بارہ میں میں سوال کیا گيا جس نے رمضان میں شھوت غالب آنے پرمشت زنی کرلی کیونکہ وہ اس کے حکم سے جاہل تھا کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، تواس کا حکم کیا ہوگا ؟

شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

حکم یہ ہے کہ اس کےذمہ کچھ نہیں ، اس لیے کہ ہم گزشتہ سطور میں یہ بیان کیا ہے کہ روزہ دار کا روزہ تین شروط سے ٹوٹتا ہے : علم ہونا چاہیے ، یاد ہو ، اورارادہ ہونے پر ۔

آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 38023 ) کے جواب کا مطالعہ ضرور کریں ۔

لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ : انسان کومشت زنی کرنے سے صبر کرنا چاہیے اس لیے کہ مشت زنی حرام ہے جس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورجولوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ، سوائے اپنی بیویوں اوراملکیت کی لونڈیوں کے یقینا یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں ، لھذا جواس کے سوا کچھ اورچاہیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں المومنون ( 5 – 7 ) ۔

اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :

( اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جوبھی شادی کرنے کی استطاعت رکھے اسے شادی کرنی چاہیے ، اورجوطاقت نہيں رکھتا وہ روزے رکھے اس لیے کہ یہ اس کے لیے ڈھال ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1400 ) ۔

اوراگر مشت زنی جائز ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی راہنمائی فرماتے ، اس لیے مکلف کےلیے ایسا کرنا آسان ہے ، اور اس لیے بھی کہ انسان اس میں لذت متعہ پاتا ہے ، لیکن روزے میں مشقت ہے ، توجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کی راہنمائی فرمائي تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ مشت زنی کرنا حرام ہے اورجائز نہيں ۔ ا ھـ

دیکھیں مجموع الفتاوی لابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی ( 19 / 981 ) ۔

آپ کے لیے احتیاط اسی میں ہے کہ ان ایام کی قضاء میں روزے رکھیں ، اوران ایام کی تحدید میں کوشش میں ظن غالب پر عمل کریں ۔

شیخ ابن بازرحمہ اللہ تعالی مجموع الفتاوی میں کہتے ہيں :

جس نے رمضان میں دن کےوقت جماع کیا اوراس پرروزہ فرض بھی تھا یعنی وہ مقیم اورصحیح اوربالغ تھا ، لیکن جماع جہالت کی بنا پرکربیٹھا تواس کے بارہ میں اہل علم کا اختلاف پایا جاتا ہے :

کچھ کا کہنا ہے کہ : اس پرکفارہ ہوگا ، کیونکہ اس نے سوال نہیں کیا اورنہ ہی دین کی سمجھ حاصل کی ہے اوریہ کوتاہی ہے ۔

دوسرے اہل علم کہتے ہیں : جہالت کی بنا پراس پر کفارہ لازم نہیں ، تواس سے آپ کویہ علم ہوا ہوگا کہ آپ کے لیے احتیاط اسی میں ہے کہ کفارہ ادا کریں ، کیونکہ آپ نے کوتاہی کی ہے اورحرام کام کرنے سے قبل سوال بھی نہیں کیا ۔ اھـ دیکھیں مجموع الفتاوی لابن باز ( 15 / 304 ) ۔

اس معاملہ میں احتیاط یہی ہے کہ کفارہ ادا کیا جائے ، اوریہاں کفارہ واجب اس لیے کہ اس نے جماع کے ساتھ روزہ توڑا ہے ، اوررمضان میں دن کے وقت روزہ کی حالت میں جماع کے علاوہ باقی کسی بھی روزہ توڑنے والی چيز سےکفارہ واجب نہيں ہوتا اس کا بیان گزر بھی چکا ہے ۔

آپ اس کی تفصیل کےلیے سوال نمبر ( 38023 ) کے جواب کا مطالعہ ضرور کریں ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب