سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

غیرمسلم لڑکی کے مطالبہ پرایک مسلمان عورت کا عظيم قصہ

5019

تاریخ اشاعت : 03-04-2004

مشاہدات : 10831

سوال

مرحبا : میری عمرہ پندرہ برس ہے اورمیں اسٹریلیا میں پڑھتی ہوں ، میرے ذمہ ادیان کے بارہ میں ایک مقالہ ہے جس کا موضوع اسلام میں عورت کے احکام ہے ، میں نے آپ کی ویپ سائٹ کوبہت مفید پایا مجھے علم نہيں کہ کہں مزید معلومات ارسال کرنے کوئ مانع تونہیں اورکتنا ہی اچھا ہوکہ کسی عورت کا کو‏ئ قصہ جو اس مقالہ میں معاون ہو ؟
میں حقیقت میں جس طرح غیرمسلم عورتوں کےبارہ میں جانتی ہوں مسلمان عورتوں کے بارہ میں بہت زيادہ علم نہیں رکھتی ، لیکن اتنا علم ہے کہ اسلام میں عورت پربہت زيادہ پابندیاں ہیں ۔
مجھے امید ہے کہ آپ اس موضوع میں میری تصحیح کریں گے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم آپ کے اہتمام اورسؤال پرمشکورہیں ، اورذیل میں ہم آپ کے سامنے ایک عظیم مسلمان عورت کا قصہ رکھتے ہیں جس میں ہوسکتا ہے آپ کا مطلوب بھی پوراہوجاۓ اور آپ کے لیےحق کے راستے کی طرف دلیل اورچراغ بن جاۓ :

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( مالک بن انس نے اپنی بیوی ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہ جوکہ انس رضي اللہ تعلی عنہ کی والدہ بھی ہیں کوکہا :

بلاشبہ یہ شخص - یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم - شراب نوشی کوحرام کہتا ہے ، اورمالک وہاں سے شام چلا گيا اوروہیں مرگیا ( یعنی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ھجرت کرکے مدینہ تشریف لاۓ تومالک وہاں سے بھاگ گيا اس لیے کہ اسے شراب کی حرمت پسند نہیں آئي اورشام میں کفر کی حالت میں ہی مرگیا )

ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کوشادی کا پیغام بھیجااوران سے بات کی توام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :

اے ابوطلحہ ! تیرے جیسے آدمیوں کورد تونہیں کیا جاسکتا لیکن بات یہ ہے کہ توکافر ہے اور میں مسلمان عورت ہوں اس لیے میں شادی نہیں کرسکتی !

توابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے تجھے مہر بھی ملے گا ، توام سلیم رضي اللہ تعالی عنہ نے پوچھا میرا مہر کیا ہوگا ؟

ابوطلحہ نے کہا : سونا اورچاندی ( یعنی سونے چاندی کی رغبت دلائ ) توام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگیں مجھے سونا چاندی نہیں چاہیۓ ، میں توتجھ سے اسلام کا مطالبہ کرتی ہوں کہ اسلام قبول کرلو ، اگراسلام قبول کرلوگے تویہی میرا مہرہوگا اس کے علاوہ میں کچھ بھی نہیں مانگوں گی ۔

ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے : اس میں میرا کون تعاون کرے گا ؟ ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تعاون کریں گے ، لھذا ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تلاش کرتے ہوۓ گۓ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں بیٹھے ہوۓ تھے

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا توکہنے لگے تمہارے پاس ابوطلحہ آرہا ہے اوراس کی آنکھوں میں اسلام کی چمک ہے ۔ ( یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کامعجزہ ہے کہ ابوطلحہ کے کلام کرنے سے قبل ہی اس کے اسلام کا علم ہوگيا ) ۔

ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوام سلیم کی ساری بات بتائ اوراس پرانہوں نے ام سلیم رضي اللہ تعا لی عنہا سے شادی کرلی ۔

انس رضي اللہ تعالی عنہ سے اس قصہ کے راوی ثابت البنانی کہتے ہیں کہ ہمیں اس سے زيادہ کسی اورکے مہرکے متعلق کوئ خبرنہیں پہنچی اس لیے کہ ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا اسلام کومہربنایا توابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے ان سے شادی کرلی ۔

ام سلیم نیلگوں اورقدرے چھوٹی آنکھوں کی مالک خاتون تھیں ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ کےساتھ رہیں حتی کہ ان کا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا ، ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ ان سے بہت زيادہ محبت کرتے تھے ۔

اوروہ بچہ بہت سخت بیمار ہوگيا توابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ اس کی بیماری سے بہت پریشان وعاجز اور اس کی وجہ سے بہت زيادہ کمزوراوردبلے ہو گۓ ، ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ کی عادت تھی کہ وہ فجر کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے اورآدھے دن تک وہیں رہتے ۔

پھر واپس آ کرکھانے کھاتے اورقیلولہ کرتے اورظہر کی نماز پڑھ کرتیار ہوکے چلے جاتے اورعشاء کے وقت واپس آتے تھے ، ایک شام ابوطلحہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( اورایک روایت میں ہے کہ مسجد) کی طرف چلے گۓ اوربچہ قضاۓ‎ الہی سے فرت ہوگيا ( یعنی ان کی غیرموجودگی میں )

توام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں : ابوطلحہ کوان کے بچے کی موت کا کوئ نہ بتاۓ ، بلکہ میں خود ہی انہیں بتاؤں گی ، انہوں نے بچے کی تجہیزوتکفین کی اوراسے ڈاھانپ دیا گویا کہ وہ سورہا ہو اوراسے گھر میں ایک طرف لٹا دیا ۔

ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آۓ اوران کے ساتھ مسجدوالوں میں سے ان کے دوست بھی تھے ابوطلحہ ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا کے پاس آۓ اورپوچھنے لگا بیٹا کی حالت کیسی ہے ؟

توام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا کا جواب تھا :

اے ابوطلحہ جب سے اسے تکلیف شروع ہوئ ہے ابھی کچھ دیرپہلے ختم ہوئ ہے ، اورمجھے امید ہے کہ وہ آرام اورراحت محسوس کررہا ہے !

( ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا کا یہ کوئ جھوٹ نہیں بلکہ انہوں نے توریہ کیا جس میں ان کا مقصد یہ تھا کہ بچے کو تکلیف اوربیماری سے موت کے سکون و راحت اورارام میں ہے اوران کے خاوند یہ سمجھے کہ بچے کی حالت پہلے سے بہتر اوراچھی ہے )

ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا نے انہیں کھانا دیا ان سب نے کھانا کھایا اورسب دوست چلے گۓ ۔

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوطلحہ رضي اللہ تعالی اٹھے اوراپنے بستر پرجا کرسو گۓ اورام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا بھی اٹھیں اورخوشبووغیرہ لگائ اورابوطلحہ کے لیے اچھا بناؤ سنگار کیا جس طرح وہ پہلے کرتی تھیں ۔

( یعنی اپنے خاوند کے لیے بناؤ سنگار کیا جوکہ ان کے صبرعظیم اورتقدیر اوراللہ تعالی کے فیصلے پرایمان کی دلیل اورنشانی اوراللہ تعالی سے ثواب کے حصول کےلیے صبر اوران کےغم کے شعور کوچھپانے اوراس امید کی دلیل ہے کہ اس رات اپنے فوت شدہ بچے کے عوض میں خاوندسے ہم بستری کرکے حمل کی امید رکھتے ہوۓ کیا )

پھرآکر خاوند کے بستر میں داخل ہو‏ئ توابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ کوخوشبوآئ اورابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے وہ کیا جو آدمی اپنی گھروالی سے کرتا ہے ( یہ راوی نے خاوند کا بیوی سے ہم بستری کے واقعہ بیان کرنےمیں ادب و عفت کا طریقہ ہے )

جب رات کا آخری پہرہوا تو ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :

اے ابوطلحہ ذرا یہ توبتائيں کہ اگر کچھ لوگ کسی کے پاس عاریۃ کوئ چيزرکھیں اورپھر وہ اپنی اس رکھی ہوئ چیزکا مطالبہ کریں توکیا انہیں یہ لائق ہے کہ وہ ان کی رکھی ہو‏ئ چيز واپس نہ کریں ؟

ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے انہیں اسے اپنے پاس رکھنے کا کوئ حق نہیں پہنچتا ۔

ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں : تواللہ تعالی نےبھی آپ کوبیٹا عاریتا دیا تھا پھراللہ نے اسے قبض کرلیا ہے ، لھذا آپ صبر کیں اوراللہ تعالی سے اجرحاصل کریں !

ابوطلحہ کوغصہ آیا اورکہنے لگے : تونےمجھے ایسے ہی رہنے دیا حتی کہ میں نے جماع اورجنابت بھی کرلی اورپھرمجھے میرے بیٹے کی موت کی خبر دی!

پھرانہوں نے ( إنا لله وإنا إليه راجعون ) بلاشبہ ہم بھی اللہ کے لیے ہیں اوراس کی طرف لوٹ کرجانے والے ہيں ، پڑھا اوراللہ تعالی کی حمدوثنا بیان کی

جب طلوع فجر ہوئ توغسل کیا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی اورانہيں سارا قصہ بیان کیا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی تمہاری اس گزری ہوئ رات میں برکت فرماۓ ، تواس سے ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کوحمل ٹھر گيا ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ام سلیم کے بارہ میں کی ہوئ دعا قبول ہوئ‏ )

ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں جاتی تھیں جب آپ جاتے وہ بھی جاتیں اورجب واپس آتے تو وہ بھی آجاتیں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بچہ پیدا ہوتومیرے پاس لانا ،۔

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے اورام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا بھی ساتھ تھیں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب سفر سے واپس آتے تورات کونہیں آتے تھے ۔

( یعنی رات کومدینہ میں نہیں آتے تھے تا کہ اہل عیال کوگبراھٹ میں نہ ڈالیں اوربیویاں سفر پرگۓ ہوۓ خاوندوں کے لیے تیاری کرلیں )

نبی صلی اللہ جب اس سفر میں مدینہ کے مریب پہنچے توام سلیم کودردوں نے آلیا ، اوران کی وجہ سے ابوطلحہ کوبھی رکنا پڑا اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چل پڑے ،توابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے دعا کی اےاللہ تجھے علم ہے کہ مجھے یہ پسند ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی نکلوں اوران کے ساتھ ہی مدینہ میں داخل ہوؤں اورتودیکھ رہا ہے کہ میں اس کی وجہ سے رکا ہوا ہوں ۔

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں : اے ابوطلحہ مجھے اب وہ دردنہیں جوپہلے ہو رہی تھی ( یہ ان کی کرامت ہے کہ اللہ تعالی سے دعا کرتے ہی وہ درد جاتی رہی تا کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا ملیں )

تووہ دونوں وہاں سے آگۓ اورجب مدینہ آگۓ توپھردرد شروع ہوا توام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا نے ایک بچہ جنا ، اورام سلیم اپنے بیٹے انس رضي اللہ تعالی عنہ کوکہنے لگيں اے انس اسے اس وقت کوئ چيزنہیں کھلانی جب تک کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس نہ لے جاؤ

اوربچے کےساتھ کچھ کھجوریں بھی بھیجیں ( اس لیے کہ وہ چاہتی تھیں کہ بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ جاۓ ، جو کہ ان کے عظیم الشان ایمان پردلالت کرتا ہے حالانکہ عورت عادتا پیدائش کے بعد سب سے پہلے بچے کودودھ پلانے کی کرتی ہے )

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : بچے نے رات روتے ہوۓ گزاری اورمیں ساری رات اس کا خیال رکھتا رہا اورچپ کرانے کی کوشش کرتا رہا جب صبح ہوئ تومیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گيا اورنبی صی اللہ علیہ وسلم دھاری دار چادر لیے ہوۓ صدقہ کے اونٹ یا بکریوں کونشانات لگا رہے تھے تاکہ وہ دوسروں میں گھل مل کرضائع نہ ہوجائيں ۔

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کی طرف دیکھا توفرمانے لگے : کیا بنت ملحان کے ہاں بچے پیداہواہے ؟

جواب کہا گیا جی ہاں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے صبر کرومیں تیر ے لیے فارغ ہوتا ہوں ۔

انس رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں جوکچھ بھی تھا اسے رکھااوربچے کواٹھا لیا اورفرمانے لگے : کیا اس کے ساتھ کوئ اورچيزبھی ہے ؟ توصحابہ نے جواب دیا جی ہا ں کھجوریں ہیں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھجوریں لیں اورانہیں چبا کراپنے تھوک کے ساتھ بچے کے منہ میں ڈالیں ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھوک اللہ تعالی کی جانب سے بابرکت ہے ) اوراسے چٹائ اوربچہ کھجور کی مٹھاس اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تھوک چوسنے لگا ۔

تواس طرح بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے داخل ہوکر انتڑیوں کو کھولنے والي چيز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تھوک تھی ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے دیکھو انصار کی کھجوروں سے محبت ہے ، انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اےاللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کانام بھی رکھ دیں ،تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سر پر پیار کیا اوراس کا نام عبداللہ رکھا ،توانصارمیں اس سے افضل جوان کوئ‏ نہیں تھا ۔

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس عبداللہ کی اولاد بہت زيادہ تھی اورعبداللہ فارس میں شہید ہوۓ ( یعنی فارس کے شہروں کو فتح کرتے ہوے جام شھادت نوش کیا جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا اثر تھا )

یہ قصہ امام بخاری اور امام مسلم اورامام احمد اورطیالسی ، وغیرہ نے روایت کیا ہے ، اوپر گزرنے والا سیاق طیالسی کا بیان رکردہ ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کے سارے طرق احکام الجنائز ص 26 میں جمع کیے ہیں ۔

یہ تومسلمانوں میں سے صرف ایک صحابیہ عورت کا ایک قصہ تھا ، اوراس کے علاوہ بھی بہت سے قصے اورواقعات پاۓ جاتے ہیں جوعورتوں پر اسلامی اثر کوواضح کرتے ہیں ، کہ کس طرح ان پاکیزہ دلوں میں دین اسلام بسا ہوا تھا اوراس کے کیا اچھے نتائج حاصل ہوتے تھے ۔

اورکس طرح وہ دین کے ساتھ معاملات کرتے اوراعمال صالحہ اورسیرت نبویہ کس طرح کے پھل دیتے تھے ، دین حق اور دین صحیح کے متلاشی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اتباع کے لیے اگرکوئ دین تلاش کرتا ہے تووہ دین اسلام ہی ہے ۔

آپ ایک دفع اس جواب اورقصہ کوپھرپڑھیں اورغورو فکر اورتدبر سےکام لیں ہوسکتا ہے کہ آپ بھی اپنی زندگی کا سب سے اہم قدم اٹھائيں اورسلام قبول کرلیں ، والسلام علی من اتبع الھدی ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد