الحمد للہ.
جس كى ملكيت ميں نصاب كے مطابق سونا ہو جو كہ پچاسى گرام ( 85 ) ہے اور اس پر سال مكمل ہو جائے تو اس كى زكاۃ نكالنا واجب ہے، اور اس كى مقدار اڑھائى فيصد ( 2.5 % ) ہے، چاہے يہ اسى سونے سے نكالى جائے، يا پھر اسے فروخت كرنے كے بعد اس كى قيمت سے، يا اس كے علاوہ كسى دوسرى رقم سے.
اور اس ليے كہ آپ سونے كے علاوہ كسى چيز كى مالك نہيں تو آپ اسى سونے سے زكاۃ ادا كريں، يا پھر اس ميں سے كچھ سونا فروخت كر كے زكاۃ ادا كر ديں، اور اگر كوئى ايك ( آپ كا والد يا بھائى يا خاوند يا كوئى اور ) آپ كى جانب سے زكاۃ ادا كرتا ہے تو يہ بھى جائز ہے اور اس كا اسے اجر بھى حاصل ہو گا.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" زكاۃ زيور كى مالكہ كے ذمہ ہے، اور اگر اس كا خاوند يا كوئى اور اس كى جانب سے اس كى اجازت كے ساتھ زكاۃ ادا كرتا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور سونے سے زكاۃ نكالنا واجب نہيں، بلكہ جب بھى سال مكمل ہو تو اس كى قيمت سے زكاۃ نكالنا ہى كافى ہے، اور سال پورا ہونے كے وقت سونے اور چاندى كى جو قيمت ہو گى اس كے حساب سے زكاۃ ادا كر دى جائے" انتہى
ديكھيں: ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 85 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا زيب و زينت كے ليے تيار كردہ سونے ميں زكاۃ ہے ؟
اور اگر عورت سونے كو فروخت كيے بغير زكاۃ ادا نہ كر سكتى ہو تو كيا كرے؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" علماء كرام كے اقوال ميں سے صحيح اور ميرى نزديك راجح يہ ہے كہ جب زيور نصاب كو پہنچ جائے جو كہ پچاسى گرام ہے تو اس پر زكاۃ واجب ہے اور اگر اس كے پاس مال ہو اور وہ اس ميں سے زكاۃ ادا كرے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور اگر اس كى جانب سے اس كا خاوند يا اس كا كوئى قريبى رشتہ دار زكاۃ ادا كر دے تو اس ميں كوئى حرج نہيں ہے، اور اگر دونوں ہى نہ ہو سكيں تو پھر وہ سونے ميں سے كچھ سونا فروخت كر كے زكاۃ ادا كرے گى.
ہو سكتا ہے بعض لوگ يہ كہيں كہ:
اگر ہم ايسا كرتے ہيں تو اس عورت كا زيور ہى ختم ہو جائے گا، اور اس كے پاس كچھ نہيں بچے گا.
اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے كہ:
يہ صحيح نہيں ہے، كيونكہ جب سونا نصاب سے كم ہو جائے چاہے تھوڑا سا ہى نصاب سے كم ہو تو اس ميں زكاۃ واجب نہيں ہوتى، تو اس وقت اس كے پاس ضرور زيور بچے گا جسے وہ پہن سكتى ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 / 138 ).
واللہ اعلم .