سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

رمضان المبارك شروع ہونے سے قبل والدين سے اختلاف كرنے والے شخص كو آپ كيا نصيحت كرتے ہيں ؟

سوال

ايسے شخص كے بارہ ميں كيا حكم ہے جس نے رمضان المبارك كے روزے شروع كر ديے ليكن گھريلو اخراجات كے بارہ ميں اپنے والدين كے ساتھ اس كا اختلاف ہے كيونكہ والدين وہ ان اخراجات ميں منصانہ برتاؤ كے ساتھ شركت نہيں كرتے حالانكہ وہ تعاون كرنے كى استطاعت بھى ركھتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سبحانہ وتعالى نے والدين كے ساتھ حسن سلوك كرنا واجب اور ان كى نافرمانى سے منع فرمايا ہے، اور حكم ديا ہے كہ والدين كے ساتھ نيكى اور بھلا برتاؤ كيا جائے، اور يہ سب كچھ كتاب اللہ اور سنت نبوى ميں واضح طور پر بيان كيا گيا ہے.

اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 22782 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور پھر بھوك اور پياس كى وجہ سے روزے مشروع نہيں كيے گئے، بلكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے روزے كى مشروعيت كى عظيم حكمت اور بہت جليل فائدہ ذكر كيا ہے كہ اس روزے كے ساتھ بندہ اللہ سبحانہ وتعالى كا تقوى حاصل كرتا ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى نے اس كى حكمت بيان كرتے ہوئے فرمايا:

اے ايمان والو! تم پر اسى طرح روزے فرض كيے گئے ہيں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض كيے گئے تھے تا كہ تم تقوى اور پرہيزگار بن جاؤ البقرۃ ( 183 ).

اور تقوى اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى اور معصيت و گناہ كے ترك كا نام ہے.

اور يہاں پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ خبر بھى دى كہ بہت سے لوگ روزے سے سوائے بھوك اور پياس كے كچھ حاصل نہيں كر پاتے، فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بہت سے روزہ دار ايسے ہيں جس كا روزہ سوائے بھوك كے كچھ نہيں اور بہت سے قيام كرنے والے ايسے ہيں جنہيں رات بيدارى كے سوا كچھ حاصل نہيں ہوتا "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1690 ) اور ابن حبان رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح قرار ديا ہے ديكھيں صحيح ابن حبان ( 8 / 257 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى بھى اسے صحيح الترغيب ( 10 / 83 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بہت سے روزہ داروں كو روزہ ميں صرف بھوك اور پياس ہى حاصل ہوتى ہے، اور بہت سے قيام كرنے والوں كو صرف رات بيدارى كے علاوہ كچھ حاصل نہيں ہوتا "

اسے طبرانى نے الكبير ( 12 / 382 ) نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 1084 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور جيسا كہ ايك مسلمان شخص كو والدين ميں سے كسى ايك يا دونوں كو پا كر جنت ميں دخول كے سبب كى فرصت اور موقع حاصل كرنا چاہيے، اسى طرح اسے رمضان المبارك كو اپنى توبہ اور استغفار اور معافى كا باعث اور سبب بنانا چاہيے، اس كے پاس توبہ كے ليے رمضان فرصت ہے وہ اپنے رب كے سامنے توبہ و استغفار كر كے جنت ميں داخل ہونے كى كوشش كرے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك بار رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر پر چڑھے اور فرمايا: آمين، آمين، آمين.

صحابہ كرام نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ منبر پر چڑھے تو آپ نے آمين، آمين، آمين، كہا.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

ميرے پاس جبريل امين عليہ السلام تشريف لائے اور فرمايا: جس نے رمضان المبارك كا مہينہ پا ليا اور اسے بخشا نہ گيا تو وہ جہنم ميں داخل ہو گيا، اور اللہ تعالى نے اسے دور كرديا، آپ آمين كہيں، تو ميں نے آمين كہا، پھر انہوں كہا: جس نے اپنے والدين يا ان ميں سے ايك كو پا ليا اور ان كے ساتھ حسن سلوك نہ كيا اور اسى حالت ميں فوت ہو گيا تو وہ آگ ميں داخل ہوا اور اللہ تعالى نے اسے دور كر ديا، آپ آمين كہيں، تو ميں نے آمين كہا، جبريل امين فرمانے لگے: جس كے پاس آپ كا نام ليا جائے اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے اور وہ مر گيا تو آگ ميں جائے گا، تو اللہ تعالى نے اسے دور كر ديا، آپ آمين كہيں، تو ميں نے آمين كہا"

اسے ابن حبان ( 3 / 188 ) نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 1679 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

خلاصہ:

آپ پر واجب ہے كہ اپنے والدين كو خوش ركھنے كى كوشش كريں، چاہے وہ آپ كو آپ كى استطاعت اور طاقت سے زيادہ كام كرنے كا كہيں، كيونكہ اگر آپ اس پر صبر كرينگے اور اجروثواب كى نيت ركھيں گے تو ان شاء اللہ اللہ تعالى آپ كے ليے رزق كے دروازے كھول دے گا، اور اہل و عيال پر نفقہ كے مال طلب كرنے كو محسوس كرنے كى كوئى ضرورت نہيں، اور خاص كر جب آپ كے والدين نے آپ سے مال حرام كام اور معصيت كے ارتكاب كے ليے طلب نہيں كيا تو يہ كوئى برا كام نہيں.

ہاں يہ ممكن ہے كہ ـ اگر وہ استطاعت ركھتے ہيں ـ ان كے ساتھ اچھے اور بہتر طريقہ اور احسن اسلوب كے ساتھ بات كى جائے، اور آپ انہيں اپنى ضرورت سمجھائيں كہ آپ اس سے زيادہ مال دينے كى طاقت نہيں ركھتے، اور اسى طرح آپ پر واجب ہے كہ آپ ان كا تعاون كريں اور اگر وہ محتاج ہيں تو اپنى استطاعت كے مطابق ان پر خرچ كريں.

اور رمضان المبارك تو آپ كے ليے اصلاح كى فرصت ہے آپ والدين كے ساتھ صلح كريں، اور پھر رمضان تو اللہ كى راہ ميں خرچ كرنے كى فرصت ہے اور رمضان المبارك ميں سخاوت كرنا زيادہ اجرو ثواب كا باعث ہے اور اپنے اہل و عيال پر خرچ كرنا بھى اسى ميں شامل ہے جيسا كہ حديث ميں ہے:

حكيم بن حزام رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اوپر والا ( دينے والا ) ہاتھ نيچے ( لينے ) والے ہاتھ سے بہتر ہے، اور آپ اپنى عيالت ميں رہنے والوں سے شروع كريں، اور بہترين صدقہ غى و مالدارى كے بعد ہے... "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1428 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1034 )

لہذا آپ خرچ كريں اور اللہ تعالى كے ہاں اجروثواب كى نيت ركھيں، اور اس پر خوش ہو جائيں تو آپ كے رب كے پاس آپ كے ليے ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب