سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اسلام ميں قيديوں كي صحت كي حفاظت

5157

تاریخ اشاعت : 24-04-2005

مشاہدات : 5749

سوال

ميرےمقالہ كا عنوان: جيل ميں صحت كي ديكھ بھال ہے، تو كيا قيديوں كےليےبھي وہي ديكھ بھال ہوگي جوباقي عام لوگوں كي صحت كي ہوتي ہے؟
اس معاملہ ميں مساوات كےبارہ ميں اسلامي رائےكياہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اسلام نےقيد خانوں اورقيديوں كےمعاملہ كوبہت اہميت دي ہے اور اس كا بہت خيال ركھاہےجس كي نظير كسي زمانے اور كسي جگہ پر نہيں ملتي، اسي ليے فقھاء كرام نےاپني كتب ميں قيديوں كےاحكام اور ان كےحالات اور ان كےساتھ برتاؤ كےبارہ ميں بہت كچھ لكھا ہے، اور يہ سارے كا سارا اہمتمام اسلام ميں انسان كي عزت وتكريم اور اس كي شخصيت كي حفاظت كي بناپر ہوا ہے.

اس معاملہ ميں آساني اوراس كےاحكام كي توضيح بيان كرنےكےليے اہل علم نےاس مسئلہ كودوقسموں ميں تقسيم كيا ہے:

قيدي كي صحت كےمتعلقہ احكام اور جيل جہاں قيد كوقيد كيا جاتا ہےاس كےمتعلقہ ديكھ بھال كےاحكام .

اول:

قيدي كي شخصي صحت كےمتعلقہ احكام:

1 – مريض كوقيد كرنا: فقھاء كرام نے مريض كو قيد كرنےكےمتعلق ابتدائي طور پر ہي بحث كي ہےكہ آيا حكمران مريض شخص كو قيد كرسكتا ہے يا نہيں؟

اس كاجواب يہ ہےكہ يہ مسئلہ اجتھادي ہے اوراس ميں قاضي اورجج مجرم كي بيماري اور اس كي حالت اور قيد كا سبب اور جيل ميں اس مرض كي ديكھ بھال كےامكانات كا جائزہ ليتے ہوئےفيصلہ كرےگا، لھذا جب جيل ميں مريض كي ديكھ بھال كےوافر مواقع موجود ہوں اور مرض بھي خطرناك نہ ہو كہ اگر اسےقيد كرديا جائےتووہ ہلاك ہوجائے تواس صورت ميں اسےقيد كرنا جائز ہے ، اور جب جيل ميں اس بيماري كا علاج اور مريض كي ديكھ بھال نہ كي جاسكتي ہو توقاضي اسے ايسےشخص كےسپرد كرےگا جواس كا علاج معالجہ كرے اور اس كي حفاظت بھي تاكہ صحتياب ہونےكےبعد اسےقيد كيا جاسكے.

2 - اگرمجرم جيل ميں بيمار ہوجائے:

جب مجرم جيل ميں بيمار ہوجائےاور جيل ميں ہي اس كا علاج معالجہ ممكن ہو تواسےجيل سےباہر نكالےبغير ہي علاج معالجہ كرنا واجب اور ضروري ہے، لھذا ڈاكٹر اور اس كي خدمت كےليےآنےوالےشخص كواس كےپاس جاكر علاج معالجہ كرنےسےنہيں روكا جاسكتا، اور اگر اس كےعلاج معالجہ نہ كرانےكي بنا پر قيدي ہلاك ہوجائےتواس كا سبب بننےوالے كوسزا دي جائے گي.

حديث ميں ہےكہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم ايك بندھےہوئے قيدي كےپاس سےگزرے تواس قيدي نےيامحمد يامحمد پكارنا شروع كرديا تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم اس كےپاس تشريف لائے اوراس سےپوچھا كيا بات ہے؟ تواس قيدي نےكہا ميں بھوكا ہوں مجھےكھانا كھلائيں ميں پياسا ہوں مجھے پاني پلائيں، تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےاس كي ضروريات پوري كرنے كا حكم ديا . صحيح مسلم ( 3 / 1263 ) .

بلاشك وشبہ علاج ومعالجہ مريض كي ضروريات ميں شامل ہے.

ليكن اگر قيدخانہ ميں مريض قيدي كا علاج ومعالجہ ممكن نہ ہو تواسے جيل سےنكال كرجيل كي نگراني ميں علاج معالجہ كرانا ضروري ہے اوراس مريض قيدي كي نگراني كےليے كسي اہلكار كواس كےساتھ ركھا جائے جواس كي نگراني اور حفاظت كرے.

يہ اورفقھاء كرام نے جسماني يا نفسياتي امراض ميں كوئي فرق نہيں كيا ( نفسياتي امراض حقيقي ہوں نہ كہ جھوٹےاور بناوٹي يا وہ عادي امراض جنہيں لےكر بہت سےوكيل مجرموں كوبري كرانےكي كوشش كرتےہيں ) اس ليے فقھاء كرام نےيہ ذكر كيا ہے كہ جب قيدي كےبھاگنےكا خدشہ نہ ہوتوجيل كا دروازہ بندنہيں كيا جائےگا اور نہ ہي قيدي كو اندھيري كوٹھري ميں ركھا جائےگا اور كسي حال ميں بھي اسےاذيت سےدوچار نہيں كياجائےگاجس وہ دھشت زدہ ہوجائے، اور اسي طرح اس كےعزيز واقارب كوبھي ملنےسے منع نہيں كياجائےگا كيونكہ ايسا كرنےسے اس كي صحت پر اثرپڑتا ہے اور نفسياتي مريض بننےكا خدشہ ہے.

3 - حكمران يااس كےنائب كےليے مشروع ہےكہ وہ جيل ميں ايك ميڈيكل سينٹر قائم كرےجوقيديوں كي صحت اور ان كي حالت كا خيال ركھے ايسا كرنےسے عام ہاسپٹلوں ميں لےجاكر حقارت اور ذلت كا سامنا نہيں كرنا پڑے گا.

4 -- قيدي كوبيوي سےملاقات كرنےكي اجازت دينا ضروري ہے اوراگر جيل ميں كوئي مناسب جگہ ہوتوانہيں عليحدگي بھي مہيا كرنا ہوگي تاكہ قيدي اور اس كي بيوي اپنےآپ حفاظت كرسكيں اور غلط كام ميں نہ پڑيں.

5 - فقھاء كرام نےبالنص يہ بيان كيا ہے كہ قيدي كو وضوء اور طھارت وپاكيزگي كرنے كا موقع ديا جائے، اس ميں كوئي شك نہيں كہ طہارت وپاكيزگي مرض سےبجاؤ كا باعث ہيں.

دوم:

قيدي كوقيد كي جانےوالي جگہ كےمتعلقہ احكام:

جيل كي جگہ وسيع اور صاف ستھري ہوني چاہيے جہاں پر سورج كي كرنيں بھي پہنچتي ہوں اوروہاں زندگي كي ضروريات بھي ہوں جواس كي صحت كي ضامن ہوں.

قيديوں كو كسي ايسي جگہ پر جمع كرنا جائزنہيں جہاں وہ نماز كےليے وضوء ہي نہ كرسكيں.

سوم:

ذيل ميں وہ چند ايك امور بيان كيےجاتےہيں جن كا قيدي كو سزا دينےيا پھر اس سےمعاملات كرنےميں استعمال كرنا حرام ہے:

1 - جسماني مثلہ كرنا: قيدي كےجسم سےكوئي اعضاء وغيرہ كاٹ كريا ہڈي وغيرہ توڑ كراسے سزا ديني حرام ہے، نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے قيديوں كا مثلہ كرنےسے منع كرتےہوئےفرمايا: ( تم مثلہ نہ كرو ) صحيح مسلم ( 3 / 1357 ) .

2 - چہرے وغيرہ پر مارنا جس ميں توہين ہوتي ہو، جيسا كہ قيدي كي گردن ميں طوق ڈالنا يا پھر انہيں كوڑے مارنےكےليے زمين پر لٹانا چاہے حد ہي كيوں نہ ہو، كيونكہ ايسا كرنےميں توہين اور صحت اور جسماني ضررہے.

3 - آگ وغيرہ يا پھر گلا گھونٹ كريا پاني ميں غوطےدےكرتكليف اور اذيت ديني : ليكن اگر قصاص اور برابري ميں ايسا كيا جائےتوٹھيك ہے مثلا قيدي نےكسي دوسرے شخص كوآگ ميں جلا كرزيادتي كي ہو تواسےبھي اس طرح كي سزا دي جاسكتي ہے تاكہ حق ادا ہوجائے.

4 - بھوكہ ركھنا اور شديد سردي ميں سزا ديناياپھر اسے موذي اشياء كھلانا، يا لباس نہ پہننےدينا، اگر قيدي اس حالت كي بنا پر ہلاك ہوجائے تو اس كےقصاص ميں قيد كرنےوالے قتل كيا جائےگا ياديت ادا كرےگا.

5 - بالكل برہنہ كرنا، كيونكہ ايسا كرنےميں قيدي كي شرمگاہ ننگي ہو گي اور قيدي كو نفسياتي اورجسماني مرض لگنےكا خدشہ ہے.

6 - قيدي كو قضائےحاجت اور وضوء اورنماز كي ادائيگي سےروكنا، ايسا كرنےميں قيدي كي صحت پر اثر ہوگا وہ كوئي مخفي نہيں.

قيديوں سےمسلمانوں كےحسن سلوك كےچند ايك مناظر:

سابقہ حديث جس ميں يہ بيان كيا گيا ہےكہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے قيدي كا خيال ركھنےاور اس كي كھانےپينےكي ضروريات پوري كرنےكاحكم ديا، نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم قيديوں كا بہت زيادہ خيال كرتےاور اپنےصحابہ كرام كوبھي ان كےساتھ اچھا برتاؤ كرنےكي وصيت كرتے.

خليفہ راشد علي بن ابوطالب رضي اللہ تعالي عنہ جيلوں كا معائنہ كرتے اوروہاں قيد لوگوں كےحالات كا جائزہ ليا كرتےتھےاورديكھتےكہ وہاں كون قيد ہے.

پانچويں خليفہ راشد عمربن عبدالعزيز رحمہ اللہ تعالي نےاپنےگورنروں كو يہ آرڈيننس جاري كيا كہ: جيلوں ميں ديكھوكون بند ہيں اور مريضوں كا خيال ركھو.

خليفہ المعتضد عباسي نےقيديوں كي ضروريات پوري كرنےاور ان كےعلاج معالجہ كےليے بجٹ ميں سے ماہانہ پندرہ سودينار مقرر كرركھےتھے.

خليفہ عباسي المقتدر نےجب اپنےايك وزير ابن مقلہ كو قيد كيا تواس كي حالت خراب ہونےپر خليفہ نےمشہور طبيب ثابت بن سنان بن ثابت بن قرۃ كو اس كا علاج كرنےكےليے جيل ميں بھيجا اوراسےاس كےساتھ حسن سلوك سے پيش آنےكا حكم ديا، تو ڈاكٹر خود اپنےہاتھ سے قيدي كو كھاناكھلاتا اور اس كےساتھ نرم برتاؤ كرتا تھا.

خليفہ مقتدر كےدور ميں وزير علي بن عيسي الجراح نے عراق كےہسپتالوں كےانچارچ كو يہ آرڈر جاري كيا كہ: اللہ تعالي آپ كي عمر لمبي كرے ميں نے جيل ميں قيديوں كےبارہ ميں غوروفكر كيا كہ قيديوں كي كثرت اور ان كي جگہ سخت اوردشوار ہونےكي بنا پر انہيں بيمارياں لگ سكتي ہيں، اور قيدي اپنے نفع كےكام كرنےسے عاجز ہيں وہ ايسا نہيں كرسكتےاور نہ ہي وہ مختلف بيمارياں لاحق ہونےپر ڈاكٹروں سےمشورہ كرسكتےہيں، اس ليے آپ كےليے ضروري ہےكہ ان كےليے ڈاكٹروں كا انتظام كريں جوانہيں جيل جا كرعلاج معالجہ كي سہولت مہيا كريں، اور اس كےليےآپ ڈاكٹروں كوادويات اور سيرپ وغيرہ بھي مہيا كريں، يہ ڈاكٹر سب جيلوں كا دورہ كريں اور وہاں مريض قيديوں كوعلاج فراہم كريں اور قيديوں كےكہنےپران كي بيمارياں دور كريں.

يہ آرڈيننس خليفہ مقتدر سےليكر قاہر، اور راضي اور متقي كےدور تك چلتا رہا.

اس كي مزيد تفصيل جاننےكےليے آپ مندرجہ ذيل كتب ديكھيں: احكام السجن ومعاملۃ السجناء في الاسلام صفحہ ( 367 - 379 ) اور الموسوعۃ القھيۃ جلد ( 16 ) صفحہ ( 320 - 327 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد