الحمد للہ.
آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی اعمال صالحہ کرنے والوں کے اعمال کوضائع نہیں کرتا ، اورقرضہ حسنہ دینا بہت ہی بڑی اوربہتر اطاعت اورتقرب والی اشیاء اورعبادات میں شامل ہوتا ہے ، لیکن جب آپ کے خاوند کویہ علم ہوکہ یہ قرض لینے والا شخص امانت کی حفاظت نہیں کرتا اوروہ قرض واپس نہيں کرے گا بلکہ اس کی ادائيگي میں حیل وحجت اورلیت ولعل سے کام لے گا تواس کےلیے کوئي حرج نہيں کہ وہ قرض دینے اورکتابیں عاریتا دینے سے رک جائے ۔
اوراگر وہ قرض لینے والا شخص تنگ دست ہے اس کے پاس قرض کی ادائيگي کے لیے مال نہيں توپھر بہتر اورافضل یہ ہے کہ اسے مہلت دی جائے اوراس کے ساتھ نرم برتاؤ کیا جائے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اوراگر کوئي تنگ دست ہو تواسے اس کی خوشحالی تک مہلت دینی چاہیے ۔
لیکن اگرآپ اپنے خاوند کا حق طلب کرتی ہیں یا وہ خود اپنا حق طلب کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں اس لیے کہ یہ اس کا حق ہے ، لیکن اسے چاہیے کہ وہ اس میں نرمی اختیار کرے اوراچھا برتاؤ کرے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( ایک شخص فوت ہوگيا تواسے کہا گيا توکیاکہا کرتا تھا ؟ وہ کہنے لگا : میں لوگوں کواشیاء فروخت کیا کرتا توبےمال کومعاف کردیتا اورتنگ دست کے لیے تخفیف کرتا تھا تواسے بخش دیا گيا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2212 ) ۔
آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی کے ہاں کوئي چيز بھی ضائع نہیں ہوتی ، اور جوکچھ آپ کا گيا اورضائع ہوا ہے وہ آپ دونوں کودنیا میں ہی واپس مل جائے گا اورروزقیامت آپ کواجروثواب بھی حاصل ہوگا ، جس دن لوگ نیکیوں کے سب سے زيادہ محتاج ہوں گے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔
واللہ اعلم .