جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ظاہر كا خاص اہتمام كرنا

5555

تاریخ اشاعت : 27-11-2019

مشاہدات : 5968

سوال

بعض لوگ اپنے ظاہر اور لباس وغيرہ كا بہت زيادہ اہتمام كرتے ہيں، اور اس پر بہت زيادہ رقم بھى خرچ كى جاتى ہے، كيا يہ كام شريعت كے موافق ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ظاہر كے ساتھ يعنى لباس وغيرہ ميں مبالغہ سےاہتمام كرنا افراط ميں شامل ہوتا ہےجو قابل مذمت ہے، دين اسلام ايك عادلانہ اور متوسط دين ہے، نہ تو اس ميں افراط ہے اور نہ ہى تفريط، اور نہ ہى غلو و جفا پايا جاتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے بنى آدم تم مسجد كى حاضرى كے وقت اپنا لباس پہن ليا كرو، اور خوب كھاؤ پيو، اور اسراف مت كرو، بلا شك اللہ تعالى اسراف كرنے والوں كو پسند نہيں كرتا الاعراف ( 31 ).

چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس آيت ميں ہميں حكم ديا ہے كہ مسجد آتے وقت ہم اپنى زينت يعنى لباس پہن ليا كريں، اور ہمارے ليے اللہ تعالى نے كھانا پينا مباح كيا ہے، پھر ہميں اسراف اور فضول خرچى سے ڈرايا ہے، اور مبالغہ كرنے سے اجتناب كرنے كا حكم ديا ہے، اور اللہ نےہميں يہ بتايا كہ وہ اسراف اور فضول خرچى كرنے والوں كو پسند نہيں فرماتا.

اور ايك دوسرى آيت ميں ارشاد بارى تعالى ہے:

اور تم اسراف اور بيجا خرچ سے اجتناب كرو، يقينا بيجا خرچ اور اسراف كرنے والے شيطان كے بھائى ہيں، اور شيطان اپنے پروردگار كا بڑا ہى ناشكرا ہے الاسراء ( 26 - 27 ).

تو اسراف اور فضول خرچ شيطان كا ساتھى، اور اخلاق ميں شيطان جيسا ہے، كيونكہ وہ مال ضائع كرتا ہے، اور اسے وہاں صرف كرتا ہے جہاں كوئى فائدہ نہيں، اوراس كا ضابطہ يہ ہے جيسا كہ علماء كرام نے بيان كيا ہے:

وہ مال نہ تو كسى دينى فائدہ ميں خرچ كيا جائے، اور نہ ہى كسى دنياوى فائدہ كے ليے تو يہ اسراف ہو گا.

ليكن مسلمان شخص كا وصف وہى ہے جو اللہ تعالى نے درج ذيل آيت ميں بيان فرمايا ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور وہ لوگ جو خرچ كرتے وقت نہ تو اسراف اور فضول خرچى كرتے ہيں، اور نہ ہى بخل سے كام ليتے ہيں، بلكہ وہ ان دونوں كے درميان معتدل طريقہ پر خرچ كرتے ہيں الفرقان ( 67 ).

تو مسلمان شخص خرچ كرنے ميں اسراف و فضول خرچى اور بخل سے كام نہيں ليتا، بلكہ وہ ان كے درميان رہتا ہے.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں: كھاؤ اور پيو اور پہنو تم سے دو خصلتيں خطاء نہيں ہونگى، اسراف اور رياء.

بہت سارے لوگ كوشش كرتے ہيں كہ ان كا ظاہر اور لباس اور شكل و صورت صاف اور خوبصورت اور اچھى ہو، ليكن وہ اپنے دل كو بيماريوں سے پاك صاف نہيں كرتے جن سے اللہ نے ہميں اجتناب كرنے اور بچنے كا حكم ديا ہے، مثلا نفاق، جھوٹ، حسد و بغض، اور تكبر و رياء كارى، اور فخر اور اپنے آپ كو اچھا سمجھنا، اور ظلم و ستم اور جہالت، اور مومنوں كے ساتھ خيانت كرنا، يا پھر خبيث اور حرام قسم كى شہوت وغيرہ.

حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ہميں بتايا ہے كہ تقوى و پرہيزگارى كا لباس اور خوبصورتى ظاہرى لباس سے بہتر ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اے بنى آدم ہم نے تمہارے ليے لباس پيدا كيا جو تمہارى شرمگاہوں كو بھى چھپاتا ہے، اور زينت كا باعث بھى ہے، اور تقوے كا لباس يہ اس سے بھى بڑھ كر ہے، يہ اللہ تعالى كى نشانيوں ميں سے ہے تا كہ يہ لوگ يا دركھيں الاعراف ( 26 ).

اسے ايك شاعر نے كيا ہى خوب بيان كرتے ہوئے كہا ہے:

جب آدمى تقوى كا لباس نہ پہنے تو وہ چاہے كپڑے كا لباس پہنے ہوئے ہو پھر بھى ننگا ہے.

اور آدمى كا سب سے بہتر لباس اپنے رب اور اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى ہے، اور اگر آدمى نافرمان ہو تو اس ميں كوئى خير ہے ہى نہيں.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بندوں كو اجمالى طور پر فلاح و كاميابى كے متعلق بتاتے ہوئے فرمايا:

" يقينا اللہ تعالى تمہارى شكلوں اور صورتوں كو نہيں ديكھتا اور نہ ہى تمہارے مال ديكھتا ہے، ليكن وہ تمہارے دلوں اور عملوں كو ديكھتا ہے "

اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.

تو دل ہى تقوى كى جگہ اور مرد حضرات كا معدن اور معرف كا خزانہ ہے، اور اعمال اللہ كے ہاں بندوں كے ترازو ہيں، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا ارشاد ہے:

بلاشبہ تم ميں سے اللہ كے ہاں سب سے زيادہ عزت مند وہ ہے جو تم ميں سے سب سے زيادہ متقى ہے، يقينا اللہ تعالى عليم و خبير ہے الحجرات ( 13 ).

تو تعجب ہے ايسے شخص پر جو مخلوق كى نظر پڑنے والى جگہوں كو تو دھوتا، اور اسے گندگى سے صاف كرتا ہے، اور اسے خوبصورت بناتا ہے تا كہ لوگ اس كے كسى عيب پر اطلاع نہ پا ليں، ليكن وہ اپنے دل كا اہتمام نہيں كرتا جو خالق اور رب العالمين كى نظر كى جگہ ہے كہ اسے پاك كيا جائے، اوراسے خوبصورت بنايا جائے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارے دلوں كى اصلاح فرمائے، اور ہمارى زبانوں كو پاك صاف كرے، اور ہمارے اعضاء كو اپنى اطاعت و فرمانبردارى ميں استعمال كرائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: ديكھيں: مسائل و رسائل محمد المحمود صفحہ ( 15 )