جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كيا نماز فجر ميں دعائے قنوت كرنے والے كے پيچھے نماز ادا كر ليں ؟

59925

تاریخ اشاعت : 19-01-2007

مشاہدات : 8991

سوال

ہم جنوبى ايشاء كے ايك اسلامى ملك ميں بستے ہيں جہاں حكومت نمازوں ميں شافعى المسلك اماموں كى تقليد كرنے كا حكم ديتى ہے، كيا ہم ان مقلدين كے پيچھے نماز ادا كر ليں ؟
يہ علم ميں رہے كہ وہ فجر كى نماز ميں قنوت كرتے ہيں، ان كا اعتقاد ہے كہ يہ سنت ہے، اور اگر فجر ميں قنوت بھول جائيں تو سجدہ سہو كرتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نماز فجر ميں قنوت پر مداومت اور ہميشگى كرنا سنت نہيں، اس كا بيان سوال نمبر ( 20031 ) اور ( 5459 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے، آپ سے گزارش ہے اس كى مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

نماز فجر ميں قنوت كرنے والے امام كے پيچھے آپ كا نماز ادا كرنا صحيح ہے، اور اگر نماز فجر ميں تسلسل سے قنوت نہ كرنے والا كوئى امام ملے تو اس كے پيچھے نمازادا كرنا اولى اور بہتر ہے، تا كہ سنت پر عمل ہو سكے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى علماء كرام كے مختلف فيہ اجتھادى مسائل مثلا نماز فجر اور وتر وغيرہ ميں دعائے قنوت كے متعلق كہتے ہيں:

" علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ اگر وہ دونوں ميں سے كوئى كام بھى كر لے تو اس كى عبادت صحيح ہے، اور اس پر كوئى گناہ نہيں، ليكن اس ميں تنازع ہے كہ افضل كيا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فعل كيا تھا ؟

فجر اور وتر ميں قنوت، اور بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنے، اور اعوذ باللہ كے وصف والا مسئلہ بھى اس ميں سے ہے.

چنانچہ اس پر اتفاق ہے كہ جس نے بلند آواز سے بسم اللہ پڑھى اس كى نماز صحيح ہے، اور جس نے پست آواز ميں پڑھى اس كى نماز بھى صحيح ہے، اور جس نے نماز فجر ميں قنوت كي اس كى نماز صحيح ہے، اور قنوت نہ كرنے والے كى نماز بھى صحيح ہے، اور اسى طرح وتر ميں بھى " اھـ

اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" ہم نے جو كچھ بيان كيا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ قنوت مصائب اور مشكلات كے وقت كى جاتى ہے.....

اور جو اسے نماز كا جزء قرار ديتے ہوئے رہ جانے كى صورت ميں اس كى كمى سجدہ سہو كى صورت ميں پورى كرتے ہيں، ان كى بيناد يہ ہے كہ يہ سنت ہے اور مسلسل كرنا ہى سنت ہے، انہوں نے اسے پہلى تشھد وغيرہ كے مرتبہ پر ركھا ہے.

يہ واضح ہو چكا ہے كہ معاملہ ايسا نہيں، چنانچہ يہ سنت مؤكدہ نہيں اور نہ ہى اس كى بنا پر سجدہ سہو كيا جائيگا، ليكن جو شخص اس ميں تاويل كر كے اس كا اعتقاد ركھے، تو سب اجتھادى مسائل كى طرح اس ميں بھى اسے تاويل كا حق ہے.

اس ليے مقتدى كو چاہيے كہ وہ اجتھادى مسائل ميں اپنے امام كى اقتدا و پيروى كرے، اگر وہ قنوت كرتا ہے تو اس كے ساتھ قنوت كرے، اور اگر قنوت نہيں كرتا تو نہ كرے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" امام اس ليے بنايا گيا ہے كہ اس كى اقتدا كى جائے "

اور يہ بھى فرمايا:

" اپنے اماموں كى مخالفت نہ كرو"

اور صحيح ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ثابت ہے:

" وہ تمہيں نماز پڑھائيں گے، اگر تو درست ہوئے تو تمہارے اور ان كے ليے ہے، اور اگر وہ غلطى كريں تو تمہارے ليے ( اجروثواب ہے ) اور ان كے ليے اس كا وبال " اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 23 / 115 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ہمارے ہاں امام ہميشہ نماز فجر ميں قنوت كرتا ہے، كيا ہم اس كى اقتدا كريں، اور كيا ہم اس كى دعاء پر آمين كہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" جو شخص نماز فجر ميں قنوت كرنے والے امام كے پيچھے نماز ادا كرے اسے نماز فجر كى قنوت ميں اپنے امام كى اقتدا كرنى چاہيے، اور وہ اس كى دعائے خير ميں آمين كہے، امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے يہى بيان كيا ہے" اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 14 / 177 ).

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا نماز ميں سدل ( ہاتھ چھوڑ كر نماز ادا كرنا ) كرنے والےاور نماز فجر كى آخرى ركعت ميں ہميشہ قنوت كرنے والے شخص كے پيچھے نماز ادا كرنا جائز ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

نماز ميں داہنا ہاتھ بائيں پر ركھنا سنت ہے، اور ہاتھ چھوڑنا خلاف سنت اور اسى طرح نماز فجر كى آخرى ركعت ميں ہميشہ قنوت كرنا بھى خلاف سنت ہے، جيسا كہ بعض مالكى اور شافعى كرتے ہيں؛ كيونكہ ايسا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو مصائب اور مشكلات پيش آجانے كى صورت ميں قنوت كيا كرتے تھے، اور نماز وتر ميں قنوت كيا كرتے تھے.

اور اگر امام نماز ہاتھ چھوڑ كر اور صبح كى نماز ميں ہميشہ قنوت كر كے نماز ادا كرتا ہو، جيسا كہ سوال ميں بيان ہوا ہے، اہل علم نے اسے سنت پر عمل كرنے كى نصيحت اور راہنمائى كى ہے اگر تو وہ بات مان لے تو الحمد للہ اور اگر وہ انكار كرے، اور اس كے علاوہ كسى اور پيچھے نماز باجماعت ادا كرنا آسان ہو تو سنت پر عمل كرنے كے ليے اس كے پيچھے نماز ادا كى جائےگى، اور اگر اس ميں آسانى نہ ہو تو نماز باجماعت كى حرص ركھتے ہوئے اس كے پيچھے نماز ادا كى جائيگى، بہر حال نماز صحيح ہے. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 4 / 366 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب