سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

سونے كى قيمت اور تيارى كى اجرت تاخير سے ادا كرنا

59936

تاریخ اشاعت : 26-03-2007

مشاہدات : 7100

سوال

كيا كسى كاريگر كو زيور تيار كرنے كے ليے پيشگى رقم دينى جائز ہے كہ باقى رقم كام مكمل ہونے پر دى جائيگى، يہ علم ميں رہے كہ پيشگى دى گئى رقم سونا خريدنے ميں استعمال نہيں ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال سے جو سمجھ آئى ہے وہ يہ كہ آپ اس كاريگر سے سونا خريديں گے، اور وہ اسے تيار كريگا، اگر تو معاملہ اسى طرح ہے تو يہ جائز نہيں، بلكہ سونے كى قيمت ( رقم ) دينى اور اسى ايك ہى مجلس ميں سونا لينا واجب اور ضرورى ہے، اور زيور تيار كرنے كى اجرت ميں تاخير كرنى جائز ہے.

ليكن اگر سوال سے مقصود يہ ہے كہ آپ اس كاريگر كو اپنى جانب سے سونا دينگے تا كہ وہ اس كا زيور تيار كردے تو اس كى اجرت تاخير سے دينے ميں كوئى حرج نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے فرمايا:

" سونا سونے كے ساتھ، اور چاندى چاندى كے ساتھ، اور گندم گندم كے ساتھ، اور جو جو كے ساتھ، اور كھجور كھجور كے ساتھ، اور نمك نمك كے ساتھ، ايك جيسا اور برابر اور ہاتھوں ہاتھ ہو "

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان بھى ثابت ہے:

" جس نے زيادہ ديا، يا زيادہ طلب كيا تو اس نے سود ليا "

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ بھى ثابت ہے كہ:

" آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس اچھى قسم كى كھجور لائى گئى تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے متعلق دريافت كيا تو صحابہ كرام نے عرض كيا: ہم دو صاع كے بدلے ايك صاع ليتے تھے، اور تين صاع كے ساتھ دو صاع "

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كو واپس كرنے كا حكم ديا اور فرمايا:

" يہ بعينہ سود ہے "

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى راہنمائى كرتے ہوئے كہا كہ وہ ردى كھجور فروخت كريں اور پھر دراہم كے ساتھ اچھى كھجور خريد ليں "

ان احاديث سے ہم يہ اخذ كر سكتے ہيں كہ سائل نے جو ذكر كيا ہے كہ سونا سونے كے ساتھ تبديل كرنا اور اسے تيار كرنے كى مزدورى زيادہ دينا يہ حرام ہے جائز نہيں، اور يہ سود كے زمرے ميں آتا ہے جس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے.

اس ميں صحيح طريقہ يہ ہے كہ ٹوٹا ہوا سونا بغير كسى پيشگى اتفاق اور نرمى كے فروخت كر كے قيمت حاصل كى جائے، اور قيمت لينے كے بعد وہ نئى چيز خريد لے، اور افضل يہ ہے كہ كہيں اور سے نئى چيز تلاش كرے اور جب اسے نہ ملے تو وہ اس كے پاس واپس آئے جس كو سونا فروخت كيا تھا اور اس سے رقم كے بدلے زيور خريد لے اور جب وہ زيادہ دے تو كوئى حرج نہيں، اہم يہ ہے كہ سونے كے ساتھ سونے كا تبادلہ فرق دے كر بھى نہيں ہونا چاہيے، چاہے يہ تيارى كى مزدورى كى بنا پر بھى ہو.

يہ تو اس وقت ہے جب تاجر تجارت كرتا ہو، ليكن اگر تاجر سنار ہو تو وہ يہ كہہ سكتا ہے: يہ سونا لو اور اس طرح كا زيور تيار كر دو، اور ميں زيور تيار ہونے كے بعد اس كى اجرت اور مزدورى دونگا، تو اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى.

ديكھيں: مجموعۃ اسئلۃ فى بيع و شراء الذھب ( پہلا سوال ).

شيخ رحمہ اللہ سے يہ سوال بھى كيا گيا:

كيا سونا ليتے وقت اس كى اجرت اور مزدورى كى ادائيگى ضرورى اور لازم ہے يا كہ ہم اسے جارى حساب و كتاب ميں شامل كر سكتے ہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اس كى ادائيگى لازم نہيں، كيونكہ يہ كام كى مزدورى ہے، اور اگر وہ سونا ليتے وقت مزدورى اور اجرت ديتا ہے تو ٹھيك، اور اگر نہيں تو جب بھى اسے دے صحيح ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموعۃ اسئلۃ فى بيع و شراء الذھب ( سوال نمبر 10 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب