سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ملازمت حاصل كرنے كے ليے رقم ادا كرنا

60183

تاریخ اشاعت : 20-05-2007

مشاہدات : 5070

سوال

كيا ميرے ليے سركارى ملازمت حاصل كرنے كے ليے كچھ رقم دينى جائز ہے، اور خاص كر جب غالبا كچھ نہ كچھ رقم ديے بغير سركارى ملازمت ملتى ہى نہيں. ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سركارى ملازمت سرٹفكيٹ اور تجربہ كى بنا پر اہل افراد ميں ايك مشترك حق ہے، اس ميں كسى كو بھى كوئى افضليت حاصل نہيں، الا يہ كہ اہليت اورتجربہ كے اعتبار سے، اور ذمہ داران كو چاہيے كہ وہ اس ميں اس شخص كو اختيار كريں جو اس كے ليے زيادہ بہتر ہو، اور اس ميں كسى بھى قسم كى رشوت اور اقربا پرورى و محبت كا دخل نہ ہو.

دوم:

ان ملازمتوں كے ليے انسان كو كوئى ايسا واسطہ تلاش كرنے كا حق حاصل ہے جو اس كے ليے سفارش كرے، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ وہ اس ملازمت كا اہل ہو، اور ايسا كرنے سے دوسروں كے حقوق پر زيادتى نہ ہوتى ہو.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

اگر ملازمت كے حصول كے ليے آپ كے ليے سفارش كروانے ميں كسى ايسے شخص كو حق سے محروم ہونا لازم آتا ہو جس كى تعيين كا زيادہ حق ہو، كہ اس كے پاس علمى اور عملى قابليت اور تجربہ زيادہ ہو، اور اس كى مشكلات كو وہ برداشت كرنے كى زيادہ قدرت ركھتا ہو، اور وہ اس كام كو دقت اور باريك بينى سے انجام دے سكتا ہو، تو پھر سفارش كرنى حرام ہے؛ كيونكہ اس صورت ميں سفارش كرنى اس شخص پر ظلم شمار ہوگا جو اس كا زيادہ حقدار تھا، اور ولى الامر كے ليے بھى ظلم ہے، وہ اس طرح كہ انہيں ايسے شخص سے محروم كيا جا رہا ہے جو كام كرنے كى اہليت اور تجربہ ركھتا تھا، اور زندگى كے معاملات ميں ان كا ممد و معاون ثابت ہو سكتا تھا، اور امت پر بھى زيادتى ہوگى كہ امت كو ايسے شخص سے محروم ركھا جا رہا ہے جو اس كے معاملات كو سرانجام دے سكتا تھا، اور اس معاملہ ميں ان كے كام بہتر طور پر كر سكتا تھا.

پھر اس سے معاشرہ ميں حسد و بغص اور كينہ جيسى بہت سى دوسرى خرابياں بھى پيدا ہونگى، اور جب سفارش اور واسطہ ڈالنے سے كسى شخص كا حق ضائع نہ ہوتا ہو، يا كسى كا نقصان نہ ہوتا ہو تو يہ جائز ہے، بلكہ شرعا اس كى رغب دلائى گئى ہے، اور ايسا كرنے پر سفارش كرنے والے كو ان شاء اللہ اجروثواب بھى حاصل ہوتا ہے.

صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ثابت ہے كہ:

" تم سفارش كرو تمہيں اجروثواب حاصل ہو گا، اور اللہ تعالى اپنے رسول كى زبان سے جو چاہتا ہے فيصلہ كرواتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1342 ) " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 25 / 389 ).

سوم:

ليكن اس سفارش اور واسطہ ڈالنے والے كو رقم اور پيسے دينے كا مسئلہ تفصيل طلب ہے:

1 - اگر تو واسطہ اور سفارش كرنے والا شخص ملازمين كو پركھنے اور ان كا امحتان لينے كا ذمہ دار ہو، يا پھر اس ميں اپنے نفوذ اور طاقت و موقع غنيمت جانے، تو ايسے شخص كے ليے مال اور رقم دينى رشوت شمار ہو گى اور يہ حرام ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے راشى اور مرتشى دونوں پر لعنت فرمائى ہے.

راشى رشوت دينے اور المرتشى رشوت لينے والے كو كہتے ہيں، اور الرائش رشوت دينے اور لينے اور ان كے مابين واسطہ بننے والے كو كہتے ہيں.

امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ابو حميد ساعدى رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث بيان كي ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو زكاۃ اكٹھى كرنے كے ليے بھيجا، جب وہ زكاۃ اكٹھى كر كے لايا تو كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: يہ آپ كا ہے، اور يہ مجھے ہديہ ديا گيا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اپنے ماں باپ كے گھر ہى كيوں نہ بيٹھے رہے اور انتظار كيا كہ آيا تھے ہديہ ديا جاتا ہے يا نہيں ؟

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسى سہ پہر نماز كے بعد كھڑے ہوئے اور اللہ تعالى كے شايان شان حمد و ثنا بيان فرمائى اور كہنے لگے:

اما بعد:

" اس اہلكار كى حالت كيا ہے جسے ہم كسى كام كے ليے روانہ كرتے ہيں تو وہ آكر كہتا ہے: يہ آپ كے كام ميں سے ہے، اور يہ مجھے ہديہ ديا گيا ہے، تو وہ اپنے ماں باپ كے گھر ہى كيوں نہ بيٹھا رہا اور انتظار كرے كہ آيا اسے ہديہ ديا جاتا ہے يا نہيں ؟

اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے وہ جو كچھ بھى لائے گا روز قيامت اسے اپنى گردن پر اٹھائے ہوئے ہوگا، اگر وہ اونٹ ہے تو آواز نكال رہا ہوگا، يا گائے ہو گى تو وہ بھائيں بھائيں كر رہى ہو گى، يا پھر بكرى ہو گى تو وہ مميا رہى ہوگى "

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے تو ہم نے آپ كى بغلوں كى سفيدى ديكھى، اور فرمايا: خبردار رہو، ميں نے پہنچا ديا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6636 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1832 ).

2 - اگر وہ اس ملازمت كا اہل ہے اور آپ كے ليے رشوت دينے كے نتيجہ ميں كسى دوسرے كے حق پر زيادتى نہيں ہوتى، يا آپ جيسے يا آپ سے بہتر شخص كو اس ملازمت سے محروم نہيں كيا جاتا، اور آپ كو اپنا حق يہ رشوت ديے بغير نہيں ملتا تو پھر اس حالت ميں آپ كے ليے رشوت دينى جائز ہے، تا كہ آپ اپنا حق حاصل كر سكيں، اور اگرچہ لينے والے كے ليے يہ حرام ہى ہے.

چاہے يہ مال يہ ملازمت دينے والے ذمہ دار افسر كو دى جائے يا كسى اور شخص كو جو اس ملازمت كے حصول كے ليے واسطہ اور سفارش كروائے.

ابن حزم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور رشوت حلال نہيں ہے، رشوت يہ ہے كہ باطل فيصلہ كرانے كے ليے مال دينا، يا كوئى ذمہ دارى حاصل كرنے كے ليے، يا كسى انسان پر ظلم كرنے كے ليے مال دينا اس صورت ميں لينے اور دينے والا دونوں ہى گنہگار ہونگے.

ليكن وہ شخص جسے اس كا حق نہيں ديا جا رہا تو وہ اپنا حق حاصل كرنے كے ليے رشوت دے تا كہ اپنے آپ سے ظلم ہٹا سكے، تو يہ دينے والے كے ليے مباح اور جائز ہے، ليكن لينے والا گنہگار ہوگا " انتہى.

ماخوذ از: محلى ابن حزم ( 8 / 118 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر اس نے اپنے سے اس كا ظلم روكنے كے ليے كوئى ہديہ ديا، يا اس ليے ديا كہ وہ اس كا واجب حق ادا كرے تو يہ ہديہ لينے والے پر حرام ہو گا اور دينے والے كے ليے ہديہ دينا جائز ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلا شبہ ميں ان ميں سے كسى ايك كو عطيہ ديتا ہوں تو وہ نكلتا ہے تو بغل ميں آگ دبا ركھى ہوتى ہے.

آپ سے عرض كيا گيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ انہيں ديتے كيوں ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وہ مجھ سے مانگے بغير جاتے ہى نہيں، اور اللہ تعالى ميرے ليے بخل كے وصف كا انكار كرتا ہے"

اس كى مثال يہ ہے كہ: جس نے آزاد كيا اور اس كى آزادى كو چھپا ليا تو اسے دينا، يا پھر لوگوں پر ظلم كرنے والوں كو دينا، تو يہاں دينے والوں پر جائز ہے، ليكن لينے والے كے ليے حرام ہے.

اور سفارش ميں ہديہ دينا، مثلا كوئى شخص حكمران كے پاس سفارش كرے تا كہ اسے ظلم سے بچائے، يا اس تك اس كا حق پہنچائے، يا اسے وہ ذمہ دارى دے جس كا وہ مستحق ہے، لڑائى كے ليے فوج ميں اسے استعمال كرے اور وہ اس كا مستحق ہو، يا فقراء يا فقھاء يا قراء اور عبادت گزاروں كے ليے وقف كردہ مال ميں سے دے اور وہ مستحق ہو، اور اس طرح كى سفارش جس ميں واجب كام كے فعل ميں معاونت ہوتى ہو، يا كسى حرام كام سے اجتناب ميں معاونت ہو، تو اس ميں بھى ہديہ قبول كرنا جائز نہيں، ليكن دينے والے كے ليے وہ كچھ دينا جائز ہے تا كہ وہ اپنا حق حاصل كر سكے يا اپنے سےظلم روك سكے، سلف آئمہ اور اكابر سے يہى منقول ہے " انتہى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.

ماخوذ از: مجموع الفتاوى الكبرى ( 4 / 174 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" رہى وہ رشوت جس سے انسان اپنا حق حاصل كرے مثلا رشوت ديے بغير اپنا حق حاصل نہ كر سكتا ہو، تو يہ رشوت لينے والے كے ليے حرام ہو گى، نہ كہ دينے والے پر، كيونكہ دينے والے نے تو اپنا حص حاصل كرنے كے ليے مال ديا ہے، ليكن جس نے يہ رشوت لى ہے وہ گنہگار ہے كيونكہ اس نے وہ مال ليا ہے جس كا وہ مستحق نہ تھا " انتہى.

ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 302 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب