جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

سفارش سے بى اے كى سند حاصل كر كے ملازمت كرنے كا حكم

60199

تاریخ اشاعت : 21-05-2007

مشاہدات : 5982

سوال

ميں ايك يونيورسٹى كالج ميں تعليم حاصل كرتا رہا ہوں ليكن تعليم مكمل نہ كر سكا، اور سفارش كے ذريعہ بى اے كى سند حاصل كرنے كے بعد اس سند كى بنا پر مجھے ملازمت بھى مل گئى، اور ميں نے اس سے حاصل ہونے والى تنخواہ سے شادى بھى كى، اور اب ميں دو بچے ہيں، ميرا سوال يہ ہے كہ:
اس كا شرعى حكم كيا ہے ـ يہ علم ميں رہے كہ ميں يہ كام بہت اچھى طرح كرنے كا ماہر ہوں، اور ميرے پاس مينجر كى جانب سے كام كى رپورٹ بھى ممتاز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ كا سفارش كے ذريعہ بغير استحقاق كے سند حاصل كرنا حرام عمل تھا، اور اس ميں كئى ايك حرام كام كا مرتكب ہوا گيا ہے، اور جس نے آپ كى سفارش كى تھى وہ بھى اس حرام كام ميں آپ كے ساتھ برابر كا شريك ہے سفارش كے ذريعہ آپ كى سند كے حصول سے جو حرام كام ہوئے وہ درج ذيل ہيں:

ا ـ يہ برى اور غلط سفارش تھى.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

جو كوئى بھى بہتر اور اچھى سفارش كريگا اس كے ليے اس ميں سے اسے بہتر حصہ ملے گا، اور جو كوئى غلط اور برى سفارش كريگا اس كے ليے اس ميں سے اسے گناہ ملے گا، اور اللہ تعالى ہر چيز پر قدرت ركھنے والا ہے النساء ( 85 ).

كفل كا معنى نصيب اور حصہ ہے، يعنى اسے گناہ ميں سے حصہ ملے گا.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" سفارش كرنے پر اجروثواب كا حصول عموم پر مشتمل نہيں، بلكہ يہ جس ميں سفارش جائز ہو اس پر مخصوص ہے، جو كہ اچھى اور بہتر سفارش ہے، اور اس كا ضابطہ اور قاعدہ يہ ہے كہ:

جس ميں شريعت نے اجازت دى ہے، نہ كہ اس ميں جس ميں شريعت نے اجازت نہيں دى، جيسا كہ آيت اس پر دلالت كرتى ہے.

امام طبرى رحمہ اللہ نے صحيح سند كے ساتھ مجاہد رحمہ اللہ سے بيان كيا ہے كہ:

يہ لوگوں كا ايك دوسرے كى سفارش كے بارہ ميں ہے.

اور اس كا حاصل يہ ہوا كہ: جس كسى نے بھى خير و بھلائى ميں كسى كى سفارش كى تو اسے اس كے اجروثواب ميں سے حصہ ملےگا، اور جس كسى نے بھى كسى كے ليے باطل اور غلط سفارش كى تو اس كے گناہ ميں سے اسے بھى حصہ ملےگا " انتہى.

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 450 - 452 ).

ب ـ دھوكہ و فراڈ اور جعل سازى، وہ اس طرح كہ ايسے كاغذات اور دستاويز پيش كرنا جس كى كوئى حقيقت نہيں ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے ہميں دھوكہ ديا وہ ہم ميں سے نہيں ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 102 ).

ج ـ وہ چيز ظاہر كرنا جو اس كے پاس ہے ہى نہيں، وہ اس طرح كہ اس كا يہ دعوى كرنا كہ اس نے سند حاصل كر ركھى ہے، حالانكہ حقيقت اس كے برعكس ہے.

اسماء رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تكلف كے ساتھ كوئى چيز ظاہر كرے جو اسے ديا ہى نہيں گيا وہ اسى طرح ہے جس نے جھوٹ كا لباس پہن ركھا ہو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4921 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2130 ).

د ـ جھوٹى بات اور جھوٹى گواہى.

ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا ميں تمہيں اكبر الكبائر كى خبر نہ دوں ؟

تو ہم نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيوں نہيں آپ ضرور بتائيں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

اللہ تعالى كے ساتھ شرك كرنا، اور والدين كى نافرمانى كرنا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تكيہ پر سہارا لگائے بيٹھے تھے تو فرمانے لگے: خبردار اور جھوٹى بات اور جھوٹى گواہى، خبردار اور جھوٹى بات اور جھوٹى گواہى، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بات بار بار دہرائى اور كہتے رہے حتى كہ ہم كہنے لگے كاش نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاموش ہو جاتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5631 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 87 )

ھـ . لوگوں اور ملازم ركھنے والوں كے سامنے جھوٹ بولنا.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" منافق كى تين نشانياں ہيں: جب بات كرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، اور جب وعدہ كرتا ہے تو وعدہ خلافى كرتا ہے، اور جب امانت ركھى جائے تو اس ميں خيانت كرتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 33 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 59 ).

و ـ اصلى اور حقيقى سند حاصل كرنے كا حق چھيننا، اس ميں ان لوگوں كے حقوق ملازمت پر ناحق ظلم كرنا ہے.

ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حديث قدسى ميں فرمايا:

" اللہ تعالى كا فرمان ہے: اے ميرے بندو ميں نے اپنے اوپر ظلم حرام كيا ہے، اور تمہارے درميان بھى اسے حرام كر ديا ہے، تو تم آپس ميں ايك دوسرے پر ظلم مت كرو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2577 ).

تو آپ ديكھيں كہ اس فعل ميں كتنى معصيت و نافرمانياں جمع ہيں اور جس قدر اس ميں مخالفت ہے اسى قدر گناہ بھى زيادہ ہوگا، اس ليے آپ پر واجب ہے كہ ـ اور اس پر بھى جس نے آپ كى سفارش كى تھى ـ اس سے سچى اور پكى توبہ كريں، اور جو كچھ ہو چكا ہے اس پر ندامت كا اظہار كريں، اور آئندہ پختہ عزم كريں كہ يہ فعل دوبارہ نہيں كرينگے، اور اس كے ساتھ ساتھ استغفار بھى كريں، اور اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كے زيادہ سے زيادہ عمل كريں.

دوم:

اور رہا مسئلہ اس سند كى بنا پر آپ كى ملازمت اور آپ كى كمائى كا تو ہميں اميد ہے كہ اس كے حل كے آپ كى توبہ ہى كافى ہو گى، جب آپ يہ كام بہت اچھے طريقہ سے كر رہے ہيں، اور اس كے ماہر ہو چكے ہيں، اور اچھى طرح سرانجام بھى دے رہے ہيں.

مزيد معلومات كے حصول كے ليے آپ سوال نمبر ( 69820 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب