الحمد للہ.
عزیز واقارب پر خرچ کرنے کی دوقسمیں ہیں :
پہلی قسم :
جسے عمودی یااوپروالا نسب کہا جاتا ہے اوراس میں آباء واجداد چاہے جتنے بھی اوپر کے کیوں نہ ہوں اوراسی طرح اولاد چاہے وہ جتنے بھی نیچے کی جانب ہی کیوں نہ ہوں شامل ہوتے ہیں ، توان پر دوشرطوں کے ساتھ خرچ کرنا واجب ہے :
پہلی : ان میں سے جس پر بھی خرچ کیا جارہا وہ فقیرہواورکسی چيز کا مالک نہ ہو یا پھر جوکچھ اس کے پاس ہے وہ اس کے لیے کافی نہیں اورنہ ہی کمانے کی قدرت وطاقت رکھتا ہو ۔
دوسری : خرچ والا خود غنی ہو اوراس کے پاس اپنی اوربیوی بچوں کی ضرورت سے زائد ہو ۔
تیسری شرط : دین ایک ہو ( یعنی سب مسلمان ہوں )
دوسری قسم : مذکورہ بالا عزیزواقارب کے علاوہ دوسرے غیرعمودی رشتہ دار پر خرچ کرنا واجب اس وقت ہوتا ہے جب ان میں مندرجہ بالا دوشرائط کے ساتھ تیسری شرط بھی پائی جاۓ اور وہ مندرجہ ذیل ہے :
تیسری شرط : کہ جس پر خرچ کیا جارہا ہے اس پر خرچ کرنے والا وارث ہو ، یعنی وہ اس کا وارث بننا ممکن ہو ۔
تواس بنا پر اگر آپ کے چچا اوروالد اگر خرچ کرنے کی استطاعت و طاقت رکھتے ہیں توان سب کا آپ کی دادی پر خرچ کرنا واجب ہے ۔
لیکن آپ احسان کے مسئلہ کونہ بھولیں اورپھر قریبی رشتہ دار پر صدقہ کرنا تودوہرے اجر کا باعث ہے اس لیے کہ اس میں ایک توصلہ رحمی ہے اوردوسرا صدقہ ، اورآپ اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی یاد رکھیں :
اورتم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالی اس کا بدلہ تمہیں دیتا ہے اوروہ سب سے بہتر اوراچھا روزی دینے والا ہے ۔
لھذا قریبی پر خرچ کرنا اور پھر خاص کر والد پر خرچ کرنا تو سب سے بڑا روزي کے حصول کا سبب ہے اورباعث برکت بھی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی اپنی جانب سے اجرو ثواب سے نوازتے ہیں ۔
توپھر آپ کو اس پر خوش ہونا چاہيۓ کہ آپ کے والد اپنی والدہ اوربہنوں پر خرچ کررہے ہیں اورآپ انہیں اس پرابھاریں کہ وہ اورزيادہ خرچ کریں اوراپنے چچاؤں سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں تا کہ ان سے افضل بن سکیں ۔
اوررہا مسئلہ خرچ کرنے کی مقدار کے بارہ میں تو اس کے بارہ ہم گزارش کریں گے کہ یہ خرچ کرنے والے کی حسب استطاعت وقدرت اور جس پر خرچ کیا جارہا ہے اس کی ضرورت کے مطابق ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
آپ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں آپ ان سے کہہ دیجیۓ کہ تم جو بھی خیر وبھلائ کے ساتھ خرچ کرووہ ماں باپ اوررشتہ داروں ۔۔۔
واللہ اعلم .