سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

كيا سلس البول ( پيشاب نہ ركنے كى بيمارى ) والے شخص كى امامت صحيح ہے ؟

60375

تاریخ اشاعت : 17-06-2007

مشاہدات : 6759

سوال

كيا پيشاب نہ ركنے كى بيمارى والا شخص امامت كروا سكتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

پيشاب نہ ركنے كى بيمارى والا شخص اپنے جيسى بيمارى والے شخص كى امامت كروا سكتا ہے، ليكن صحيح اور تندرست اشخاص كى امامت كروانے ميں علماء كرام كا اختلاف ہے.

بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ امامت كروانا جائز نہيں، بلكہ ان كى نماز باطل ہو جائيگى، اور بعض علماء كرام صحيح كہتے ہيں.

موسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:

" فقھاء كرام متفق ہيں كہ اگر امام پيشاب نہ ركنے كى بيمارى ميں مبتلا ہو اور مقتدى بھى ايسے ہى تو نماز جائز ہے، ليكن اگر امام اس بيمارى كا شكار ہو اور مقتدى صحيح و تندرست ہوں تو اس كى امامت كے جواز ميں فقھاء كرام كے دو قول ہيں:

پہلا قول:

احناف اور حنابلہ كے ہاں جائز نہيں، كيونكہ صاحب عذر حقيقتا حدث ميں ہى نماز ادا كرتا ہے، ليكن ان كا يہ حدث ان كے حق ميں نہ ہونے جيسا ہے كيونكہ يہ ادا كے ليے ضرورت ہے، اس ليے انہيں كوئى نقصان نہيں دے گا، كيونكہ ضرورت اس كے مطابق مقدر ہو گى، اور اس ليے بھى كہ صحيح اور تندرست شخص معذور سے زيادہ قوى ہے، اور قوى و طاقتور كى بنا ضعيف پر نہيں ہو سكتى.

دوسرا قول:

مالكيہ اور شافعيہ كے ہاں ان كى نماز صحيح ہے، اور وہ نماز نہيں لوٹائيں گے، اور اس ليے بھى كہ جب عذر والے عذر كى بنا پر معاف ہے تو دوسرے كے ليے بھى معاف ہے، ليكن مالكيہ نے يہ صراحت كى ہے كہ اس بيمارى والے كا صحيح اور تندرست لوگوں كى امامت كرنا مكروہ ہے" انتہى باختصار

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 25 / 187 ).

اور المجموع للنووى ( 4 / 160 ) بھى ديكھيں.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے دريافت كيا گيا:

پيشاب كى بيمارى والے كى امامت كا حكم كيا ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" جسے پيشاب ( سلس بول ) وغيرہ كى بيمارى ہو اس كى في نفسہ اپنى نماز صحيح ہے، كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:

حسب استطاعت اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو.

اور فرمان ربانى ہے:

اللہ تعالى كسى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب ميں تمہيں كوئى حكم دوں تو تم حسب استطاعت اس پرعمل كرو"

ليكن اس نے جن صحيح اور تندرست لوگوں كى امامت كروائى ہے ان كى نماز صحيح ہونے ميں اختلاف ہے.

اور راجح يہى ہے كہ ان كى نماز بھى صحيح ہے، ليكن اولى اور بہتر يہى ہے كہ اختلاف سے بچنے كے ليے اسے تندرست اور صحيح لوگوں كى جماعت نہيں كروانى چاہيے" انتہى

عبد العزيز بن باز، عبد الرزاق عفيفى، عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 397 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور اس ( يعنى پيشاب كى بيمارى والے ) كى نماز صحيح اور تندرست امام كے پيچھے صحيح ہے، اس بيمارى ميں مبتلا شخص كى امامت كرانے ميں بھى نماز صحيح ہے، يہ دو صورتيں ہيں:

اور تيسرى صورت يہ ہے كہ: اگر اس بيمارى ميں مبتلا شخص صحيح اور تندرست لوگوں كى امامت كروائے، اس ميں بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ يہ صحيح نہيں، اگر اس بيمارى ميں مبتلا شخص نے صحيح اور تندرست لوگوں كى امامت كى تو مقتدى كى نماز باطل ہو گى، اور اس كى اپنى نماز بھى باطل ہو گى، كيونكہ اس نے ايسے لوگوں كى امامت كى نيت كى ہے جن كى امامت كرانى صحيح نہ تھى، ليكن اگر يہ اس سے جاہل ہو تو اور بات ہے.

اس كى امامت صحيح نہ ہونے كى علت يہ ہے كہ: اس بيمارى ميں مبتلا شخص كى حالت صحيح اور تندرست شخص كے عليحدہ ہے، اور يہ ممكن نہيں كہ مقتدى كى حالت امام سے اعلى ہو.

اور اس ميں صحيح قول يہ ہے كہ: پيشاب كى بيمارى ميں مبتلا شخص اپنے جيسى بيمارى ميں متبلا كى امامت بھى كروا سكتا ہے، اور صحيح اور تندرست لوگوں كى امامت بھى كروانا صحيح ہے.

اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان كا عموم ہے:

" لوگوں كى امامت وہ كرائے جو قرآن مجيد كا سب سے زيادہ حافظ ہو"

اس شخص كى نماز صحيح ہے، كيونكہ اس نے وہ كام كيا جو اس پرواجب تھا، اور جب اس كى نماز صحيح ہے تو اس كى امامت بھى صحيح ہو گى.

اور ان كا يہ كہنا كہ: مقتدى امام سے اعلى حالت والا نہيں ہو سكتا، يہ قول اس سے ٹوٹ جاتا ہے كہ تيمم كر كے جماعت كرانے والے شخص كے پيچھے وضوء والے لوگوں كى نماز صحيح ہے، اور وہ بھى اس كے قائل ہيں، حالانكہ وضوء والا اعلى حالت ميں ہے، ليكن ان كا كہنا ہے كہ: تيمم والے كى طہارت صحيح ہے، تو ہم كہتے ہيں كہ: جس كو پيشاب كى بيمارى ہے اس كى طہارت بھى صحيح ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 172 - 173 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب