سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اكيلا نماز ادا كرے تو خشوع پيدا ہوتا ہے، اور مسجد ميں خشوع نہيں ہوتا

6295

تاریخ اشاعت : 31-03-2006

مشاہدات : 6258

سوال

مجھے ايك مشكل درپيش ہے كہ جب ميں باجماعت نماز ادا كروں چاہے امام بنوں يا مقتدى جو اس ميں خشوع بہت قليل ہوتا ہے، ليكن جب ميں انفرادى نماز ادا كروں تو زيادہ خشوع و خضوع پيدا ہوتا ہے.
كيا ميرے ليے انفرادى نماز ادا كرنا جائز ہے، چاہے جماعت ہو رہى ہو يا پھر جماعت شروع ہونے والى ہو ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ميرے سوال كرنے والے بھائى آپ نے جو كچھ بيان كيا ہے كہ اكيلے نماز ادا كرنے كى صورت ميں آپ كو زيادہ خشوع حاصل ہوتا ہے، جو نماز باجماعت ميں حاصل نہيں ہوتا، يہ ايك شيطانى چال ہے جس سے ہميں اللہ تعالى نے اس فرمان بارى تعالى ميں منع فرمايا ہے:

اور تم شيطان كى راہ پر نہ چلو يقينا وہ تمہارا واضح اور كھلا دشمن ہے البقرۃ ( 167 ).

نماز باجماعت مسجد ميں ادا كرنا واجب ہے، اور شيطان آپ كو عدم خشوع كے شبہ ميں ڈال كر اس واجب سے دور ہٹانا چاہتا ہے، اور آپ كو اكيلے اور انفرادى نماز ادا كرنے كے خوبصورت اور سہانے خواب دكھا رہا ہے كہ ايسا كرنے سے زيادہ خشوع و خضوع پيدا ہوتا ہے.

حقيقت يہ ہے كہ شيطان آپ كو اللہ تعالى كے گھر مسجد اور اپنے مسلمان بھائيوں كے ساتھ مسجد ميں نماز باجماعت ادا كرنے سے دور كر رہا ہے تا كہ آپ اكيلے ہو جائيں.

حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان فرمايا ہے كہ نماز باجماعت ترك كرنے والوں پر شيطان غالب آ جاتا ہے، ابو داود كى درج ذيل حسن حديث ميں ہے:

ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:

" كسى بستى ميں رہنے والے يا تين باديہ نشينوں ميں نماز باجماعت نہ ہو تو ان پر شيطان غالب ہو جاتا ہے، آپ نماز باجماعت كو لازم كريں، كيونكہ عليحدہ اور دور رہ جانے والى بكرى كو بھيڑيا كھا جاتا ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 547 ) يہ حديث صحيح الجامع ميں ہے.

زائدہ كہتے ہيں كہ سائب كا كہنا ہے: يعنى نماز باجماعت ميں.

نماز باجماعت كے حكم ميں شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اللہ عزوجل نے اپنى كتاب عزيز ميں نماز باجماعت ادا كرنے كى عظيم شان بيان كى ہے، اور اللہ كے رسول كريم محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى اسے عظيم بيان كيا ہے.

چنانچہ اللہ تعالى نے اس كى محافظت اور نماز باجماعت كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:

نمازوں كى محافظت كرو، اور بالخصوص درميان والى نماز كى، اور اللہ تعالى كے ليے باادب كھڑے رہا كرو البقرۃ ( 238 ).

نماز باجماعت كى ادائيگى كے وجوب كرنے والے دلائل ميں يہ فرمان بارى تعالى بھى ہے:

اور نماز قائم كرو، اور زكاۃ ادا كرتے رہو، اور ركوع كرنے والوں كے ساتھ ركوع كرو البقرۃ ( 43 ).

اس آيت كى ابتدا ميں نماز قائم كرنے كا حكم ديا، اور پھر نمازيوں كے ساتھ نماز ميں شريك ہونے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:

اور ركوع كرنے والوں كے ساتھ ركوع كر.

اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے خوف اور جنگ كى حالت ميں بھى نماز باجماعت ادا كرنا واجب كيا ہے تو پھر امن كى حالت ميں كيسے ہو گا ؟

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جب آپ ان ميں ہوں اور ان كے ليے نماز كھڑى كرو تو آپ كے ساتھ ايك گروہ نماز ادا كرے، اور چاہيے كہ وہ اپنا اسلحہ ساتھ ركھيں، اور جب وہ سجدہ كر ليں تو وہ ہٹ كر تمہارے پيچھے آ جائيں، اور پھر وہ گروہ آئے جس نے نماز ادا نہيں كى تو وہ آپ كے ساتھ نماز ادا كرے، اور اپنا بچاؤ اور اسلحہ اپنے ساتھ ركھيں النساء ( 102 ).

اگر كسى كو نماز باجماعت ادا نہ كرنے كى رخصت ہوتى تو لڑنے والوں اور جنگ كرنے والوں كے ليے بالاولى اجازت ہونى چاہيے تھى.

صحيحين ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حديث مروى ہے كہ:

" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، ميں نے ارادہ كيا كہ نماز كے ليے اذان كا حكم دوں اور پھر كسى شخص كو لوگوں كى امامت كرانے كا حكم دوں اور پھر ميں اپنے ساتھ كچھ لوگوں كو جن كے پاس ايندھن ہو لے كر ان مردوں كے پيچھے جاؤں جو نماز كے ليے نہيں آئے اور انہيں گھروں سميت جلا كر راكھ كر دوں "

صحيح بخارى ( 2 / 852 ) حديث نمبر ( 2288 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1 / 451 ) حديث نمبر ( 651 ).

اور صحيح مسلم ميں ابن مسعود رضى اللہ تعالى سے مروى ہے وہ كہتے ہيں:

( جسے يہ بات اچھى لگتى ہے كہ وہ كل اللہ تعالى كو مسلمان ہو كر ملے تو اسے يہ نمازيں وہاں ادا كرنے كا التزام كرنا چاہيے جہاں اذان ہوتى ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے تمہارى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے سنن الھدى مشروع كيں، اور يہ سنن الھدى ميں سے ہيں، اگر اپنے گھر ميں پيچھے رہنے والے شخص كى طرح تم بھى اپنے گھروں ميں نماز ادا كرو تو تم نے اپنے نبى كى سنت كو ترك كر ديا، اور اگر تم اپنے نبى كى سنت ترك كرو گے تو تم گمراہ ہو جاؤ گے، جو شخص بھى اچھى طرح وضوء كر كے ان مساجد ميں سے كسى ايك مسجد جائے تو ہر قدم كے بدلے اللہ تعالى ايك نيكى لكھتا اور ايك درجہ بلند كرتا، اور اس كى بنا پر ايك برائى كو مٹاتا ہے، ہم نے ديكھا كہ منافق جس كا نفاق معلوم ہوتا وہى اس سے پيچھے رہتا، ايك شخص كو لايا جاتا اور وہ دو آدميوں كے درميان سہارا لے كر آتا اور اسے صف ميں كھڑا كر ديا جاتا )

صحيح مسلم ( 1 / 453 ) حديث نمبر ( 654 ).

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك نابينا شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كہنے لگا:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے لانے والا كوئى نہيں جو مجھے مسجد تك لانے ميں ميرى موافقت كرے، كيا آپ مجھے گھر ميں نماز ادا كرنے كى رخصت ديتے ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا تم اذان سنتے ہو؟ تو اس نے جواب ديا: جى ہاں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تو پھر آيا كرو "

صحيح مسلم ( 1 / 452 ).

اور پھر باجماعت نماز ادا كرنے ميں بہت فوائد ہيں، جن ميں ايك دوسرے سے تعارف، اور نيكى و بھلائى، اور تقوى ميں ايك دوسرے سے تعاون اور ايك دوسرے كو حق كى تلقين اور اس پر صبر كرنے كى تلقين كرنا، اور جاہل كا حصول تعليم، اور اللہ تعالى كے شعار كا اظہار، اور اہل نفاق كو غيض و غضب دلانا، اور ان كى راہ سے دور رہنا.

اس كے ساتھ ساتھ نماز سے پيچھے رہنے والے كا علم ہونا اور پھر اسے نصيحت اور اس كى راہنمائى كرنا كہ وہ اس ميں سستى و كاہلى نہ كرے، يا پھر اگر وہ مريض ہے تو اس كى بيمار پرسى كرنا، اس كے علاوہ بھى كئى ايك فوائد ہيں.

نماز باجماعت سے پيچھے رہنا ـ اللہ اس سے بچا كر ركھے ـ بعض اوقات بالكل ہى نماز ترك كرنے كا باعث بن جاتا ہے، اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ نماز ترك كرنا كفر اور گمراہى، اور دائرہ اسلام سے خارج ہونا ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے درج ذيل حديث ميں ايسا ہى فرمايا ہے:

جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بندے اور كفر و شرك كے مابين حد فاصل ترك نماز ہے "

صحيح مسلم ( 1 / 88 ) حديث نمبر ( 82 ).

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

" ہمارے اور ان كے مابين جو عہد ہے وہ نماز ہے، جس نے نماز ترك كى اس نے كفر كيا "

اسے ترمذى نے روايت كيا اور حسن صحيح كہا ہے، ديكھيں صحيح ابن حبان ( 4 / 305 ) حديث نمبر ( 1454 ). اھـ

ميرے بھائى آپ يہ علم ميں ركھيں كہ يہ ممكن ہى نہيں كہ اللہ تعالى اپنے بندے پر كوئى حكم واجب كريں اور پھر خير و بھلائى كسى اور چيز ميں ہو، اللہ سبحانہ وتعالى نے نماز باجماعت ادا كرنا واجب كيا ہے، لہذا نماز باجماعت ادا كرنا اور اس ميں خشوع اختيار كرنا ضرورى ہے.

ليكن بعض اوقات انسان كى خلوت ميں وہ خشوع حاصل ہوتا ہے جو اسے مسجد ميں حاصل نہيں ہوتا، جيسا كہ بہت سے نمازى قيام الليل ميں محسوس كرتے ہيں، چنانچہ جب وہ اپنے گھر ميں قيام الليل كريں تو انہيں دوران قيام رونا آتا ہے، ليكن جب وہ مسجد ميں ادا كريں تو رونا نہيں آتا، اور يہ مسجد ميں ادائيگى كے منافى نہيں.

مطلوب يہ ہے كہ ہم نماز باجماعت وغيرہ ميں خشوع و خضوع پيدا كرنے والے اسباب اختيار كريں، اور سب نمازيں اس طرح ادا كريں جس طرح اللہ تعالى نے ہميں ادا كرنے كا حكم ديا ہے.

اللہ تعالى ہى زيادہ علم والا ہے، اور وہى بہتر راہ كى راہنمائى كرنے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے سردار نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد