منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

نیک کام کرنے کے بعد دل میں خود پسندی پیدا ہونا

6356

تاریخ اشاعت : 01-07-2017

مشاہدات : 7559

سوال

بسا اوقات انسان جب کوئی اچھا کام یا عبادت وغیرہ کر کے فارغ ہوتا ہے تو دل میں ریا کاری اور خود پسندی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو اس سے عمل ضائع ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے، تو اس بارے میں آپ کیا نصیحت کریں گے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر کوئی نیک کام کرنے کے بعد دل میں خود پسندی  یا ریا کاری کا شائبہ پیدا ہو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ دعا:    "اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أُشْرِكَ بِكَ وَأَنَا أَعْلَمُ، وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لاَ أَعْلَمُ" [یا اللہ! میں جان بوجھ کر تیرے ساتھ شرک کرنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور جو میری لاعلمی میں مجھ سے سر زد ہوئے ، ان سے بخشش کا طلب گار ہوں]کے ذریعے اس شائبے کو ختم کرے اور دل سے نکال دے۔

دل میں اس قسم کے احساس ہر انسان کے دل میں آتے ہیں، تاہم ہر انسان کو چاہیے کہ اپنے دل میں اخلاص پیدا کرے، اللہ تعالی سے استغفار بھی کرتا رہے، اور یہ بات ذہن نشین کر لے کہ اللہ تعالی کے سوا نیکی کی طاقت دینے والا یا برائی سے بچنے کی ہمت دینے والا کوئی نہیں ہے، چنانچہ اگر اللہ تعالی اسے یہ نیکی کرنے کی صلاحیت نہ دیتا تو یہ نیک عمل کبھی بھی نہیں کر سکتا تھا، اس لیے ہر کام کی ابتدا ہو یا انتہا [اس میں حقیقی ]تعریف تو صرف اللہ تعالی کی ہوتی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: (معاذ! اللہ کی قسم میں تم سے محبت کرتا ہوں، معاذ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ: ہر نماز کے بعد یہ الفاظ کہنا مت بھولنا: "اَللَّهُمَّ أعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ"[یا اللہ! میری  مدد فرما: تیرے ذکر، شکر اور بہترین انداز میں عبادت کیلیے]) اس روایت کو احمد، ابو داود، نسائی اور دیگر نے نقل کیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔

نیز ریا کاری کے خوف سے عملِ صالح سے پیچھے ہٹ جانا بھی صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اس طرح تو شیطان کی کامیابی  ہوگی  اس لیے کہ شیطان تو چاہتا ہے کہ اللہ تعالی کے پسندیدہ کاموں سے لوگوں کو دور کر دیا جائے۔

البتہ دل میں آنے والی خوشی اخلاص اور ایمان کے منافی نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ)
ترجمہ: آپ کہہ دیں: اللہ کے فضل اور رحمت  کی وجہ سے خوش ہو جائیں، یہ ان کی جمع پونجی سے بہتر ہے۔[یونس: 58] یعنی اگر [نتائج]ہدایت اور ایمان کے ساتھ عمل صالح  [سامنے آئیں] سعادت اور مسرت  حاصل ہو تو اسی پر اللہ تعالی نے خوش ہونے کا حکم دیا ہے۔

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (جب تمہاری نیکیاں تمہاری مسرت کا باعث ہوں اور تمہاری برائیاں تمہیں افسردہ کر دیں تو تم مومن ہو ) اسے احمد اور ابن حبان  وغیرہ نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔

اسی طرح اگر لوگ  اس کی نیکیوں پر اس کی تعریف کرنے لگیں تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے فوری ملنے والی خوش خبریوں میں سے ہے؛ کیونکہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: "آپ بتلائیں کہ: اگر کسی شخص کی کارکردگی کی وجہ سے لوگ تعریف کرتے ہیں یا اس سے محبت کرتے ہیں [تو اس کا کیا حکم ہے؟]تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ مومن کو جلد مل جانے والی خوشخبری ہے)" اسے مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

لہذا یہ اللہ تعالی کی جانب سے رضائے الہی  کی دلیل ہے، نیز اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالی اس سے محبت فرماتا ہے چنانچہ لوگ بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اچھی نیت اور نیک اعمال کی توفیق دے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: رسائل و مسائل از محمد محمود نجدی صفحہ: 21