الحمد للہ.
حج اركان اسلام ميں سے ايك ركن اور اس كى عظيم بينادوں ميں سے ايك بيناد ہے، جو كہ اللہ تعالى كى كتاب اور سنت نبويہ صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ فريضہ ہے، اور سب مسلمانوں كا اس پر اجماع ہے.
ارشاد بارى تعالى ہے:
اللہ تعالى نے ان لوگوں پر جو اس كى استطاعت ركھتے ہوں اس گھر كا حج فرض كرديا ہے، اور جو كوئى كفر كرے تو اللہ تعالى اس سے بلكہ تمام دنيا سے بے پرواہ ہے آل عمران ( 97 ).
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اسلام كى بيناد پانچ چيزوں پر ہے، اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں اور بلا شبہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں، اور نماز قائم كرنا، اور زكوۃ ادا كرنا، اور حج كرنا اور رمضان كے روزے ركھنا" صحيح بخارى حديث نمبر ( 8 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
اور حج صرف صاحب استطاعت پر فرض ہے جو استطاعت نہيں ركھتا اس پر حج فرض نہيں، اور استطاعت ميں: حج ادا كرنے كے ليے سفر كى مالى اور بدنى استطاعت شامل ہے.
اور انسان كو حج كے ليے قرض حاصل كرنے كا مكلف نہيں كيا جا سكتا، اور نہ ہى اس كے ليے ايسا كرنا مستحب ہے، اگر اس نے مخالفت كى اور قرض حاصل كر كے حج كر ليا تو ان شاء اللہ اس كا حج صحيح ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا كہ:
بعض لوگ اپنى كمپنى سے حج كے ليے قرض حاصل كرتے ہيں جو قسطوں ميں ان كى تنخواہ سے كاٹ ليا جاتا ہے، لہذا اس بارہ ميں آپ كى رائے كيا ہے؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
ميرے خيال ميں اسے ايسا نہيں كرنا چاہيے؛ اس ليے كہ جب اس كے ذمہ قرض ہے تو اس پر حج فرض ہى نہيں، تو پھر جب وہ حج كے ليے قرض حاصل كرے تو كيسے ہو گا؟ ! ميرى رائے يہ ہے كہ وہ حج كے ليے قرض حاصل نہ كرے؛ كيونكہ اس حالت ميں اس پر حج واجب نہيں.
اس ليے اس كو چاہيے كہ وہ اللہ تعالى كى دى گئى رخصت اور اس كى رحمت كى وسعت كو قبول كرے، اور اسے اپنے آپ كو ايسا قرض حاصل كرنے كى تكليف نہيں كرنى چاہيے جس كے متعلق وہ جانتا ہى نہيں كہ اس كى ادائيگى كرسكے گا يا نہيں ؟ ہو سكتا ہے اسے موت آجائے اور قرض اس كے ذمہ ہى باقى رہے" انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 21 / 93 ).
اور اگر حج كے ليے سودى قرض حاصل كيا جائے تو يہ اكبر الكبائر ميں شام ہوتا ہے، اور سود كى حرمت تو دلائل كے بغير ہى مشہور و معروف ہے.
ارشار بارى تعالى ہے:
اے ايمان والو! اللہ تعالى سے ڈرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے ترك كردو اگر تم مومن ہو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى جانب سے اعلان جنگ ہے، اور اگر تم توبہ كرلو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے البقرۃ ( 278 - 279 ).
اور ايك مقام پر ارشاد ربانى ہے:
اور اللہ تعالى نے بيع حلال اور سود كو حرام كيا ہے، لہذا جس كے پاس اس كے رب كى جانب سے نصيحت آگئى اور وہ رك گيا اس كے ليے وہ ہے جو گزر چكا اور اس كا معاملہ اللہ كى طرف ہے، اور جو كوئى پھر دوبارہ (حرام كى طرف )لوٹا وہ جہنمى ہے ايسے لوگ ہميشہ ہى اس ميں رہيں گے البقرۃ ( 274 ).
اور عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے اور كھلانے والے پر لعنت فرمائى " صحيح مسلم حديث نمبر ( 1597 ).
تو پھر ايك مسلمان شخص كيسے راضى ہو سكتا ہے كہ وہ حج كرنے كے ليے ايسے كبيرہ گناہ كا مرتكب ہو جس پر اللہ تعالى نے جنگ كا وعدہ كيا ہو حالانكہ اگر وہ صاحب استطاعت نہيں تو پھر اس پر حج فرض ہى نہيں.
اور سوال نمبر ( 11179 ) كے جواب ميں كريڈٹ كارڈ كے ذريعہ قرض كى حرمت بيان كى جا چكى ہى كہ يہ بھى سود كى ايك قسم ہے.
اور حج صحيح ہونے كے اعتبار سے تو حرام مال سے كردہ حج بھى صحيح ہے، ليكن وہ حج مبرور نہيں.
حتى كہ ايك امام كا كہنا ہے كہ:
اگر آپ نے اصلا حرام مال سے حج كيا تو آپ نے حج نہيں كيا ليكن جانور نے حج كرليا.
اللہ تعالى تو ہر پاكيزہ اور اچھى چيز قبول فرماتا ہے، بيت اللہ كا حج كرنے والے ہر شخص كا حج مبرور نہيں ہوتا.
شعر ميں العير كا معنى وہ جانور ہے جس پر حاجى سوار ہوتا ہے يعنى گدھا.
آپ سوال نمبر ( 48986 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جب كوئى شخص حرام مال كے ساتھ حج كرے يا كسى غصب كردہ جانور پر حج كرے تو ہمارے ہاں اس كا حج صحيح ہے اور ادا ہو جائے گا، اور وہ گنہگار ہوگا.
امام ابو حنيفہ اور امام مالك، اور عبدرى رحمہم اللہ تعالى نے بھى يہى كہا ہے، اور اكثر فقہاء كرام كا قول بھى يہى ہے.
ديكھيں: المجوع ( 7 / 40 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
حرام مال سے كيا جانے والے حج كا حكم كيا ہے؟ - يعنى نشہ كى اشياء فروخت كرنے كے فوائد كے ساتھ - ايسا كام كرنے كے بعد وہ اپنے والدين كے ليے حج كى ٹكٹيں بھيجتے اور حج كرتے ہيں، حالانكہ ان ميں سے بعض كو يہ علم ہوتا ہے كہ يہ مال نشہ آور اشياء فروخت كر كے جمع كيا گيا ہے، تو كيا يہ حج مقبول ہے كہ نہيں؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
حرام مال سے حج كرنا اس كے صحيح ہونے ميں مانع نہيں، ليكن حرام كمائى كا گناہ ہو گا، اور حج كے اجروثواب ميں بھى نقص اور كمى ہو گى ليكن حج باطل نہيں ہوتا.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 43 ).
اور اس باب ميں ايك حديث مشہور ہے ليكن وہ ضعيف ہے:
عمر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے حرام مال سے حج كيا اور لبيك اللہم لبيك ( حاظر ہوں ميں اے اللہ ميں حاظر ہو ) كہا، تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: نہ تو تيرى لبيك ہے اور نہ ہى سعديك اور تيرا حج تجھ پر لوٹا ديا گيا ہے"
ابن جوزى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح نہيں. ديكھيں: العلل المتناھيۃ ( 2 / 566 ).
تو يہ اولى اور بہتر ہے.
واللہ اعلم .