جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

كيا ايك ہى سورۃ نماز ميں بار بار پڑھى جا سكتى ہے ؟

65562

تاریخ اشاعت : 15-11-2006

مشاہدات : 9927

سوال

ميں ابھى قرآن مجيد پڑھنا سيكھ رہا ہوں اور مجھے زيادہ سورتيں ياد نہيں، تو كيا ميں وہى سورتيں نماز تراوايح ميں بار بار پڑھ سكتا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز تراويح يا كسى دوسرى نماز ميں ايك ہى سورۃ بار بار پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں، پہلى ركعت ميں ايك سورۃ پڑھى جائے اور وہى سورۃ دوسرى ركعت ميں بھى پڑھ لے اس كى دليل مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كا عموم ہے:

يقينا آپ كا رب جانتا ہے كہ آپ اور آپ كے ساتھ كے لوگوں كى ايك جماعت قريب قريب دو تہائى رات، اور آدھى رات، اور ايك تہائى رات كے تہجد پڑھتے ہيں، اور رات اور دن كا پورا اندازہ اللہ تعالى كو ہى ہے، وہ خوب جانتا ہے كہ تم اسے ہرگز نہ نبھا سكو گے، پس اس نے تم پر مہربانى كرتے ہوئے توبہ قبول كى، لہذا جتنا قرآن پڑھنا تمہارے ليے آسان ہو اتنا ہى پڑھو المزمل ( 20 ).

ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے معاذ بن عبد اللہ الجھنى رحمہ اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ جہينہ قبيلہ كے اس شخص نے انہيں بتايا كہ انہوں نے سنا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صبح كى نماز كى دونوں ركعتوں ميں اذا زلزلت الارض زالزالہا پڑھى، مجھے علم نہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھول كر ايسا كيا يا كہ انہوں نے عمدا ايسا كيا ؟ "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 816 )علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

عبد العظيم آبادى كہتے ہيں:

صحابى كا اس ميں تردد كہ آيا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عادت سے ہٹ كر دوسرى ركعت ميں وہى سورۃ جو پہلى ركعت ميں پڑھى تھى كو دھرانا كيا غلطى سے تھا يا كہ اس كے جواز كے ليے عمدا ايسا كيا ؟ تو يہ امت كے ليے مشروع نہيں ہو گا.

تو اس طرح كہ آيا وہى سورۃ دوسرى ركعت ميں دھرانى مشروع ہے يا نہيں جب اس ميں تردد ہو تو پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فعل مشروعيت پر محمول كرنا زيادہ اولى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے افعال ميں اصل مشروعيت ہى ہے، اور نسيان اور بھول اصل كے خلاف ہے "

ديكھيں: عون المعبود ( 3 / 23 ).

نسائى اور ابن ماجہ نے ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك ہى آيت پر ٹھر گئے اور اسے بار بار دھرانے لگے: وہ آيت يہ تھى :

إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

سنن نسائى حديث نمبر ( 1010 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1350 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح نسائى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ انہوں نے ايك شخص كو بار بار قل ہو اللہ احد پڑھتے ہوئے سنا تو صبح وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور اس كا ذكر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے كيا، گويا كہ وہ شخص اسے كم تصور كرتا تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، بلا شبہ يہ قرآن كے ايك تہائى كے برابر ہے "

اور ايك روايت ميں ہے :

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ايك شخص رات كى نماز ميں صرف قل ہو اللہ احد ہى پڑھتا تھا اس كے علاوہ كچھ نہيں"

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا اس سورۃ كو تكرار سے پڑھنے كو صحيح قرار ديا ہے.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5014 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" وہ پڑھنے والے شخص قتادۃ بن نعمان رضى اللہ تعالى عنہ تھے، امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے ابى الھيثم عن ابى سعد كے طريق سے بيان كيا ہے كہ:

" قتادۃ بن نعمان رضى اللہ تعالى تعالى عنہ سارى رات صرق قل ہو اللہ احد پڑھتے رہے اور اس سے كچھ زيادہ نہ پڑھا " الحديث .

اور دار قطنى نے اسحاق بن الطباع عن مالك كے طريق سے ان الفاظ كے ساتھ روايت كي ہے:

" ميرا ايك پڑوسى قيام الليل ميں صرف قل ہو اللہ احد ہى پڑھتا ہے" انتہى

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو اپنى كتاب قرآن مجيد حفظ كرنےاور اس پر عمل كرنے كى توفيق عطا فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب