الحمد للہ.
قرآن مجيد ختم كرنے كے بعد كوئى سنت سے ثابت شدہ كوئى خاص دعا نہيں ہے، حتى كہ صحابہ كرام اور مشہور آئمہ كرام سے بھى اس كا ثبوت نہيں ملتا، بہت سے قرآن مجيد كے آخر ميں جو دعا لكھى ہوئى ہے اس ميں سب سے مشہور يہ ہے كہ اسے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كى طرف منسوب كيا جاتا ہے، اور اس كى بھى ان سے كوئى دليل نہيں ملتى.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 14 / 226 ).
قرآن كو ختم كرنے كے بعد كى جانے والى دعا يا تو نماز ميں يا پھر نماز كے علاوہ ہو گى، نماز ميں تو قرآن مجيد ختم كرنے كى تو كوئى دليل نہيں ملتى، ليكن نماز سے باہر كے بارہ ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ انہوں نے ايسا كيا تھا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
رمضان المبارك ميں قيام الليل ميں ختم قرآن كى دعاء كرنے كا كيا حكم ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" ميرے علم كے مطابق رمضان المبارك ميں قيام الليل ميں قرآن مجيد ختم كرنے كى دعا سنت نہيں، اور نہ ہى صحابہ كرام سے ثابت ہے، زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ جب قرآن مجيد ختم كيا كرتے تھے تو وہ اپنے اہل و عيال كو جمع كر كے دعا كيا كرتے تھے، اور يہ نماز ميں نہيں " انتہى
ديكھيں: فتاوى اركان الاسلام ( 354 ).
اس سلسلہ ميں شيخ بكر ابو زيد كا ايك بہت ہى مفيد رسالہ ہے جس كے خاتمہ ميں ہے كہ:
پچھلى دونوں فصلوں كے مجموعى سياق ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كو ہم جو چيزوں ميں ختم كرتے ہيں:
پہلى: ختم قرآن كے متعلق مطلقا دعا كرنا:
اس ميں حاصل يہ ہے كہ:
اول:
جو كچھ پيچھے مرفوع بيان ہوا ہے وہ ختم قرآن كى مطلقا دعا كے متعلق ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كے متعلق كچھ بھى ثابت نہيں، بلكہ يا تو وہ موضوع ہے يا پھر ضعيف، اور قريب ہے كہ مرفوع كے معتمد باب ميں قطعا عدم وجود ہو؛ كيونكہ جن علماء كرام نے علوم قرآن اور اس كے اذكار كے متعلق لكھا ہے مثلا امام نووى، ابن كثير، قرطبى، سيوطى، رحمہم اللہ ان سب نے وہ كچھ بيان نہيں كيا جو ذكر كيا گيا ہے، اور اگر ان كے پاس كچھ ہوتا جس كى سند صحيح اور اعلى ہوتى تو وہ اسے ضرور ذكر كرتے.
دوم:
يہ صحيح ہے كہ انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ نے قرآن مجيد ختم كرنے كے بعد دعا كى اور اس كے ليے انہوں نے اپنے اہل و عيال كو بھى جمع كيا اور تابعين ميں سے ايك جماعت نے اس ميں ان كى اتباع كى ہے، جيسا كہ مجاہد بن جبير رحمہ اللہ كے اثر ميں ملتا ہے.
سوم:
امام ابو حنيفہ اور امام شافعى رحمہم اللہ كے ہاں اس كى كوئى مشروعيت ثابت نہيں.
اور امام مالك رحمہ اللہ تعالى سے مروى ہے كہ: يہ لوگوں كے عمل ميں سے نہيں، اور رمضان المبارك ميں قيام الليل ميں ختم قرآن سنت نہيں.
چہارم:
قرآن مجيد ختم كرنے كے بعد دعاء كا استحباب امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے ہے، جيسا كہ ہمارے حنابلہ علماء كرام سے منقول ہے، اور مذاہب ثلاثہ كے متاخرين ميں سے بعض نے اس كا اقرار كيا ہے.
دوسرى چيز: نماز ميں ختم قرآن كى دعا كرنا:
اس كا خلاصہ درج ذيل ہے:
اول:
جو كچھ بيان ہوا ہے اس ميں سے ايك حرف بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يا كسى صحابى سے ثابت نہيں جو نماز ميں ختم قرآن كے بعد ركوع سے پہلے يا بعد ميں اكيلے يا امام كے ليے دعا كى مشروعيت ثابت كرتا ہو.
دوم:
آخرى چيز اس باب ميں وہ ہے جو علماء بيان كرتے ہيں كہ امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے حنبل اور فضل حربى كى روايت ميں ہے ـ جس كى سند ہميں تو نہيں ملى سكى ـ كہ تراويح ميں ختم قرآن كے بعد ركوع سے قبل دعاء كرنا ہے.
اور ايك روايت ميں ہے: ـ اسے بيان كرنے والے كا بھى علم نہيں ـ
كہ انہوں نے وتر كى دعا ميں اسے پڑھنا آسان قرار ديا ہے...
ديكھيں: مرويات دعاء ختم القرآن .
واللہ اعلم .