سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

زيادہ نيند اور كام كاج كى بنا پر اس كے ليے نمازوں كے ليے اٹھنا مشكل ہے

65605

تاریخ اشاعت : 17-05-2006

مشاہدات : 7820

سوال

ميرے كام كا وقت كچھ ايسا ہے كہ سارى رات ڈيوٹى پر رہتا ہوں، اور سارا دن سوتا ہوں، ميرے چاروں نمازيں ادا كرنا مشكل ہيں، كيونكہ كام كر كے تھك جاتا ہوں اور نيند كے دوران نماز كے ليے نہيں اٹھ سكتا كہ نماز ادا كركے دوبارہ سو جاؤں، ايك دوسرا سبب بھى ہے كہ ميرى نيند بہت زيادہ گہرى ہے جب ميں سوجاؤں تو مجھے نيند سے كوئى بھى بيدار نہيں كرسكتا، حتى كہ چاہے ميں سوتے وقت نماز كے ليے اٹھنے كى نيت بھى كرلوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بعض صحابہ كرام بہت مشكل والا كام كرتے تھے مثلا زراعت اور بكرياں اور اونٹ وغيرہ چرانا، اور جلانے كے ليے لكڑياں اكٹھى كرنا وغيرہ ليكن اس كے باوجود وہ نماز ميں كوتاہى نہيں كرتے تھے، بلكہ وہ نماز كى پابندى كرتے اور نمازيں وقت پر ہى نہيں بلكہ باجماعت ادا كرتے، اور اس كے ساتھ ساتھ انہوں نے عبادت اور حصول علم كى بھى پابندى كى، ليكن اس كے باوجود كام كى بنا پر ان كے ليے نماز ترك كرنے كى رخصت نہيں دى گئى.

اس ليے كام كاج كرنے والوں اور دوسرى ڈيوٹى كرنے والے ملازمين پر واجب ہے كہ وہ نمازيں پاپندى كے ساتھ نمازوں كے اوقات ميں ادا كريں، اور پھر اللہ تعالى نے ان مومنوں كى تعريف فرمائى ہے جنہيں ان كے كام كاج اللہ تعالى كى اطاعت سے دور نہيں كرتے بلكہ وہ اس كى اطاعت ميں مشغول رہتے ہيں.

فرمان بارى تعالى ہے:

ايسے لوگ جنہيں تجارت اور خريدوفروخت اللہ تعالى كے ذكر سے اور نماز قائم كرنے اور زكاۃ ادا كرنے سے غافل نہيں كرتى، وہ اس دن سے ڈرتے ہيں جس دن بہت سے دل اور بہت سى آنكھيں الٹ پلٹ ہو جائينگى، اس ارادے سے كہ اللہ تعالى انہيں اپنے فضل ان كے اعمال كا بہترين بدلہ دے بلكہ اپنے فضل سے اور كچھ زيادتى عطا فرمائے گا، اللہ تعالى جسے چاہے بے شمار روزياں ديتا ہے النور ( 37 - 38 ).

دوم:

اور پھر سويا ہوا شخص نيند كى حالت ميں معذور ہے، اور جب وہ نيند سے بيدا ہو تو اس پر اسى وقت نماز ادا كرنا واجب ہے.

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو شخص نماز بھول جائے، يا نماز كے وقت سويا ہوا ہو تو اس كا كفارہ يہ ہے جب اسے ياد آئے نماز ادا كرے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 572 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 684 ).

امام شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" حديث اس پر دلالت كرتى ہے كہ سويا ہوا شخص نيند كى حالت ميں مكلف نہيں، اور يہ اجماع ہے "

حديث كا ظاہر يہ ہے كہ نيند ميں تفريط نہيں چاہے نماز كا وقت شروع ہونے سے قبل سويا جائے، يا پھر نماز كے وقت ميں يا بعد ضيق وقت سے قبل ايك قول يہ ہے كہ: اگر وقت تنگ ہونے سے قبل جان بوجھ كر سو جائے اور اسے اس نے نماز ترك كرنے كا ذريعہ بنا ليا ہو كيونكہ اس كا غالب گمان يہ ہے كہ وہ نماز كا وقت نكلنے سے پہلے بيدار نہيں ہو سكتا بلكہ بعد ميں ہى بيدار ہو گا تو اس حالت ميں عمدا ايسا كرنا گناہ ہے.

ظاہر تو يہ ہے كہ نيند كو ديكھتے ہوئے اسے كوئى گناہ نہيں؛ كيونكہ اس نے يہ كام وہ اس وقت سويا جب اس كے ليے يہ كام مباح تھا، ليكن اگر اسے اس لحاظ سے ديكھا جائے كہ ايسا كرنا ترك نماز كا سبب بنا تو اس كے گنہگار ہونے ميں كوئى اشكال ہى نہيں رہتا" انتہى

ديكھيں: نيل الاوطار ( 2 / 33 - 34 ).

سوم:

سونے والے كے ليے ضرورى اور واجب ہے كہ وہ سونے سے قبل نماز كے وقت بيدار ہونے كا انتظام كرنے كى حرص ركھے، اور اس كے ليے ممد و معاون اسباب مہيا كرے تا كہ نماز كے ليے بروقت بيدار ہو، اگر اس نے بيدارے ہونے كا انتظام كيا اور پھر بھى بيدار نہ ہو سكتا تو وہ معذور ہے كيونكہ اس نے واجب كى ادائيگى كرتے ہوئے انتظام كيا تھا.

كيونكہ: اللہ تعالى كسى نفس كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا اور يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ بھى ايك سفر ميں ايسا ہو چكا ہے.

ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ہم ايك رات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ سفر ميں تھے كہ كچھ لوگ كہنے لگے: اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم اگر آپ رات كے آخرى حصہ ميں پڑاؤ كريں تا كہ ہم آرام كر ليں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: مجھے خدشہ ہے كہ تم نماز كے وقت سوتے ہى نہ رہ جاؤ، تو بلال رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: ميں آپ كو بيدار كردونگا.

سب لوگ سو گئے اور بلال رضى اللہ تعالى عنہ اپنى سوارى كے ساتھ ٹيك لگا كر بيٹھ گئے اور انہيں بھى نيند آگئى تو وہ بھى سو گئے، سورج طلوع ہونے كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بيدار ہوئے تو كہنے لگے: بلال جو آپ نے كہا تھا وہ كہاں ؟

تو بلال رضى اللہ تعالى عنہ نے جواب ديا: اس جيسى نيند مجھے كبھى بھى نہيں آئى، كہنے لگے: يقينا اللہ تعالى جب چاہتا ہے تمہارى روحيں قبض كر ليتا ہے، اور جب چاہے واپس كر ديتا ہے، بلال اٹھ اور نماز كے ليے اذان كہو، تو سورج سفيد ہو چكا تو انہوں نے وضوء كيا اور اٹھ كر نماز پڑھائى"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 570 ).

اور مسلم كى روايت ميں ہے كہ:

" ہمارى نماز كى حفاظت كرنا"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 684 ).

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيدار ہونے كے اسباب اختيار كيے اور بلال رضى اللہ تعالى عنہ كو نماز كے وقت بيدار كرنے كے ليے مقرر كيا، ليكن ان كو بھى نيند آ گئى اور وہ بھى سوگئے اور ان كے ساتھ سب لوگ بھى سورج طلوع ہونے تك سوتے رہے، اور وہ اس ميں كوتاہى كے مرتكب نہ تھے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا: " ان ميں كوتاہى نہيں "

ليكن جو شخص ڈيوٹى يا كسى اور بنا پر رات كو دير تك بيدار رہے اور نماز كے وقت بيدار ہونے كے ليے اسباب بھى مہيا نہ كرے اور وقت نكلنے كے بعد نماز ادا كرے تو اسے جان بوجھ كر نماز كا تارك سمجھا جائيگا، اور نيند كى بنا پر وہ معذور نہ ہو گا.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

كيا رات كو دير تك بيدار رہنے كى بنا پر صبح وقت نكلنے كے بعد نماز ادا كرنے والى كى نماز قبول ہو گى ؟

اور باقى مانندہ نمازيں وقت ميں ادا كرے تو اس كا حكم كيا ہو گا؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" وقت ميں نماز ادا كرنے كى قدرت اور استطاعت ہونے كے باوجود اس نے وقت نكلنے كے بعد نماز ادا كى تو اس كى يہ نماز قبول نہيں ہو گى، كيونكہ اس كے ليے جلد سونا ممكن تھا.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "

رواہ مسلم.

اور جو شخص بغير كسى عذر كے نماز كو وقت ميں ادا نہيں كرتا اس نے ايسا عمل كيا جس پر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم نہيں، تو وہ عمل مردود ہو گا.

ليكن ہو سكتا ہے وہ يہ كہے: ميں تو سويا ہوا تھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو شخص نماز كے وقت سويا رہ جائے، يا بھول جائے تو اس كا كفارہ يہى ہے كہ جب ياد آئے تو نماز ادا كرے"

تو ہم اسے يہ كہينگے:

جب آپ كے ليے جلد سونا ممكن تھا، يا پھر آپ الارم لگا ليتے، يا پھر كسى شخص كو كہتے كہ نماز كے وقت بيدار كر دينا، تو اس كا نماز ميں تاخير كرنا، اور اسے ادا نہ كرنا نماز كو وقت ميں نہ پڑھنا شمار ہو گا، اور يہ نماز قبول نہيں ہو گى " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 12 / سوال نمبر14 ).

چہارم:

اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ آدمى گہرى نيند والا ہو:

تو ايسے شخص كى دو حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

كام يا طلب علم، يا پھر قيام الليل كى بنا پر رات بيدار رہنے كى وجہ سے نيند گہرى ہو، تو اس طرح كے شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ ان اسباب كى بنا پر نماز كو وقت ميں ادا نہ كرے، بلكہ اس كے ليے كوئى كام تلاش كرنا ضرورى ہے جو اس كى نمازوں كا ضياع كا باعث نہ ہو، اسى طرح اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ نوافل اور طلب علم ( جو كہ اصل ميں واجب ہے ) جيسے كام ميں مشغول ہو كر نماز كى ضياع كا باعث بنے، اور يہاں نماز ترك كرنا جان بوجھ كر ترك نماز شمار ہو گا؛ كيونكہ وہ كام تبديل كرنے اور رات كو دير تك بيدار رہنے كى عادت ترك كرنے كى استطاعت ركھتا ہے.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

ٹرپ پر جانے والے بھائيوں پر واجب ہے كہ وہ اس نعمت پر اللہ تعالى كا شكر ادا كريں كہ اس نے ان كى زندگى ميں آسانى پيدا فرمائى اور انہيں امن و امان سے نواز كر خوف سے نجات دى، انہيں چاہيے كہ اللہ تعالى نے ان پر جو نمازيں فرض كي ہيں انہيں اوقات ميں ادا كريں، چاہے فجر كى نماز ہو يا كوئى اور، ان كے ليے اس حجت كى بنا پر نماز فجر ميں تاخير كرنى جائز نہيں كہ وہ سوئے ہوئے تھے.

اس ليے كہ غالبا وہ اس نيند ميں معذور نہيں ہونگے كيونكہ نماز كے وقت بيدار كرنے كے ليے الارم لگانا ممكن تھا تا كہ نماز وقت ميں ادا كرسكيں، اور وہ يہ بھى استطاعت ركھتے تھے كہ رات جلد سو جائيں تا كہ صبح ہشاش بشاش ہو كر جلد اٹھيں" انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 12 / سوال نمبر 14 ).

دوسرى حالت:

نيند كا تعلق ڈيوٹى يا شب بيدارى سے نہ ہو بلكہ آدمى طبعى طور پر ہى گہرى نيند والا ہو، بعض اشخاص اور لوگوں ميں ايسا پايا جاتا ہے، اگر تو ايسا ہى ہو اور اس نے بيدار ہونے كے اسباب بھى مہيا كر ركھے ہوں اور پھر بھى بيدار نہ ہو تو وہ معذور ہے.

ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر كہنے لگى:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرا خاوند صفوان بن معطل طلوع شمس كے بعد فجر كى نماز ادا كرتا ہے، راوى بيان كرتے ہيں كہ صفوان رضى اللہ تعالى عنہ بھى وہيں تھے لہذا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے اس كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے جواب ديا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم كام كاج والا گھرانہ ہيں جس كے متعلق يہ معروف ہے اور جب ہم رات كے آخر ميں سو جائيں تو ہم طلوع شمس سے كے بعد بيدار ہوتے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:

" جب تم بيدار ہوا كرو تو نماز ادا كر ليا كرو"

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2459 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل ( 7 / 65 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

آپ كى حالت سے ظاہر يہ ہوتا ہے كہ آپ كى نيند گہرى ہونے كا تعلق رات دير تك بيدار رہنا ہے، اور يہ بيدارى كام اور ڈيوٹى كى بنا پر لہذا اس بنا پر آپ كے ليے يہ كام كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ كلمہ شہادت كے بعد اسلام كے عظيم ركن نماز كو ترك كرنے كا باعث بن رہا ہے، لہذا آپ كوئى اور كام تلاش كريں، اللہ تعالى آپ كو اس كا نعم البدل عطا فرمائےگا.

اور اس سے آپ اپنے آپ ميں دينى اور جسمانى طور پر بہتر تبيديلى ديكھيں گے، دينى يہ كہ نماز پنجگانہ اوقات ميں ادا كرنا عظيم واجبات ميں ہے اور اس كا ترك كرنا سب سے عظيم حرام كاموں ميں شامل ہوتا ہے.

اور جسمانى يہ كہ: ميڈيكل ريسرچ كرنے والوں نے ذكر كيا ہے كہ رات كو زيادہ دير تك كام كرنے كے بہت نقصانات ہيں، اور دن كو سونا جسم كو وہ راحت اور آرام نہيں ديتا جو رات كو سونے سے حاصل ہوتى ہے، جو كچھ بيان ہوا ہے اس سب كا آپ كى نفسيات پر سلبى اثر ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب