الحمد للہ.
مسافر ان ميں شامل ہے جنہيں اللہ تعالى نے رمضان ميں روزہ نہ ركھنے كى رخصت دى ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
جو كوئى بھى اس مہينہ كو پا لے وہ اس كے روزے ركھے، اور جو كوئى مريض يا مسافر ہو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے، اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى چاہتا اور تمہيں مشكل ميں نہيں ڈالنا چاہتا البقرۃ ( 185 ).
اور مشقت اور غير مشقت والے سفر ميں كوئى فرق نہيں، چاہے وہ آسان ہو يا مشكل.
علماء كرام كا سفر كى حد ميں اختلاف ہے جس سے انسان مسافر كہلائے اور اسے سفر كى رخصت پر عمل كرنا جائز ہو، جس ميں روزے دار كا روزہ نہ ركھنا بھى شامل ہے.
جمہور علماء كرام كے ہاں وہ مسافت تقريبا اسى ( 80 ) كلو ميٹر ہے.
اور دوسرے علماء كرام ـ اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كا اختيار بھى يہى ہے ـ كا مسلك ہے كہ سفر كى مسافت كا اعتبار عرف كے مطابق ہے، نہ كہ مسافت.
لہذا جسے لوگ عرف ميں سفر شمار كرتے ہوں وہ سفر ہے، اور اس كے ليے سفر كے شرعى احكام ثابت ہونگے.
اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ امسٹرڈم سے پيرس تك سفر كو لوگ عرف ميں سفر شمار كرتے ہيں چاہے اسى دن واپس پلٹ آئے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى الشرح الممتع ميں قليل مدت ميں طويل مسافت كے سفر پر نكلنے والے شخص كے متعلق كہتے ہيں:
" طويل مسافت ميں قليل مدت : مثلا كوئى شخص قصيم سے جدہ جائے اور اسى دن واپس پلٹ آئے، تو اسے سفر كا نام ديا جائے گا، كيونكہ لوگ اس كے ليے تيارى كرتے ہيں، اور اسے سفر سمجھتے ہيں " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 257 ).
اور قصيم اور جدہ كے مابين نو سو كلو ميٹر ( 900 ) كى مسافت ہے.
تو اس بنا پر جو امسٹرڈم سے پيرس جائے اور اسى دن واپس پلٹ آئے تو وہ دونوں قول كے مطابق مسافر ہے، يعنى چاہے ہم اسے مسافت شمار كريں يا پھر عرف ميں سفر.
سوال: ؟
اور كيا اس كے روزہ ركھنا افضل ہے يا روزہ نہ ركھنا ؟
جواب:
اس كے ليے روزہ ركھنا افضل ہے، ليكن اگر وہ اس ميں مشقت محسوس كرے تو اس كے ليے روزہ چھوڑنا افضل ہے.
شيخ الاسلام ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" مسافر كے ليے روزہ ركھنا افضل اور بہتر ہے، ليكن اگر اسے مشقت ہو تو وہ روزہ نہ ركھے، اس كے ليے روزہ ركھنا افضل ہونے كى دليل يہ ہے كہ:
اول:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فعل ہے، ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ كے ساتھ تھے اور گرمى اتنى شديد تھى كہ گرمى كى شدت سے ہم اپنے سر پر ہاتھ ركھتے پھرتے تھے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور عبد اللہ بن رواحہ رضى اللہ تعالى عنہ كے علاوہ ہم ميں كوئى بھى روزہ دار نہيں تھا "
اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے.
دوم:
اور اس ليے كہ روزہ ركھنے ميں آسانى ہے؛ كيونكہ انسان پر قضاء ميں روزہ ركھنے كے بدلے وقت ميں روزہ ركھنے سے ـ غالبا ـ مشكل ہوتا ہے؛ اس ليے كہ جب وہ رمضان المبارك ميں روزہ ركھتا ہے تو وہ لوگوں كے ساتھ روزہ ركھنے ميں موافق ہے، تو اسطرح اس كے ليے آسانى ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے بندوں پر روزے فرض كرتے ہوئے فرمايا:
اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى اور سہولت چاہتا ہے، اور تمہيں مشكل ميں نہيں ڈالنا چاہتا.
سوم:
اور اس ليے بھى كہ جب رمضان المبارك ميں سفر كى حالت ميں روزہ ركھ ليا جائے تو وہ روزوں سے جلد برى الذمہ ہو جائے گا، كيونكہ انسان كے علم ميں نہيں كہ رمضان المبارك كے بعد اسے كيا پيش آ جائے، تو اس طرح وہ روزہ سے جلد برى الذمہ ہو سكتا ہے.
اور يہاں ايك چوتھا فائدہ بھى ہے كہ: جب وہ رمضان المبارك ميں روزہ ركھے گا تو اس نے افضل وقت ـ رمضان ـ ميں روزہ ركھا.
ليكن وہ سفر ميں مشقت كى حالت ميں روزہ نہ ركھے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رش ديكھا اور ايك شخص پر سايہ كيا ہوا تھا تو فرمانے لگے: يہ كيا ہے ؟
تو صحابہ نے عرض كيا روزہ دار ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" سفر ميں روزہ كوئى نيكى نہيں "
يہ اس شخص كے متعلق كہا جس كے ليے سفر ميں روزہ مشقت كا باعث بنا تھا، اور اسى ليے جب ايك دن جب كسى جگہ پڑاؤ كيا تو روزے دار گر پڑے كيونكہ وہ تھكے ہوئے تھے، اور جنہوں نے روزہ نہيں ركھا تھا انہوں نے خيمے لگائے اور سواريوں كو پانى پلايا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" آج روزہ نہ ركھنے والے اجروثواب لے گئے "
اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے روايت كيا ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 112 ).
واللہ اعلم .