جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كيا سينٹر ميں ہى افطارى كرے يا كہ افطارى اور نماز مؤخر كر دے ؟

65711

تاریخ اشاعت : 01-10-2006

مشاہدات : 6067

سوال

ميں ابھى تعليم حاصل كر رہا ہوں، بعض ايام ميں مشقت ہوتى ہے اور معھد ميں لمبا وقت گزارنا پڑتا ہے. ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا ميں افطارى اور مغرب كى نماز معھد ميں ادا كرسكتا ہوں، يا كہ تاخير كرلوں اور گھر پہنچ كر ادائيگى كرو؟
مغرب سے كچھ منٹ قبل ہى پڑھائى ختم ہوتى ہے، اور گھر تقريبا آدھ گھنٹہ بعد پہنچتا ہوں، اگر معھد ميں نماز ادا كروں تو گاڑى نكل جاتى ہے جس كے نتيجہ ميں گھر پہنچنے ميں تاخير ہو گى، آپ مجھے اس سلسلہ ميں كيا نصيحت كرتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول وقت ميں نماز كى ادائيگى اللہ تعالى كے افضل ترين اعمال ميں شامل ہوتا ہے.

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا: اللہ تعالى كو كونسا عمل سب سے زيادہ پسند اور محبوب ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بروقت نماز كى ادائيگى، راوى كہتے ہيں: پھر كونسا عمل؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

والدين كے ساتھ حسن سلوك كرنا.

راوى كہتے ہيں: پھر كونسا عمل؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اللہ تعالى كى راہ ميں جھاد كرنا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 527 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 85 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اس حديث ميں نماز وقت پر ادا كرنے كى پابندى كرنے پر ابھارا گيا ہے اور اس سے يہ بھى اخذا كيا جا سكتا ہے كہ نماز اول وقت ميں ادا كرنا مستحب ہے؛ كيونكہ ايسا كرنا اس كے ليے احتياط ہے، اور اس كے وقت كے حصول ميں آگے بڑھنا اور جلدى كرنا " انتہى

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 2 / 265 ).

اور ام فروہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا گيا:

كونسا عمل افضل ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اول وقت ميں نماز ادا كرنا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 426 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" دو نمازوں كے علاوہ باقى نمازيں اول وقت ميں ادا كرنى مجھے پسند ہيں، نماز عشاء اور نماز ظہر گرميوں ميں ٹھنڈى كر كے ادا كى جائينگى " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 1 / 398 ).

اور اسى طرح افطارى كرنے ميں جلدى كرنا بھى مستحب ہے، اس كے متعلق بھى كئى ايك احاديث آئى ہيں:

امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے سھل بن سعد رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تك لوگ افطارى جلدى كرتے رہينگے ان ميں خير و بھلائى رہے گى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1957 ) صحيح مسلم حديث نمبر (1098 )

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 50019 ) اور ( 13999 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

مندرجہ بالا احاديث سے آپ كے سامنے ـ سوال كرنے والے بھائى كے ليے ـ يہ واضح ہوا كہ آپ كے حق ميں مستحب اور مندوب يہ ہے كہ آپ معہد ميں ہى افطارى اور نماز مغرب ادا كرنے كى كوشش كريں.

ليكن يہ مندوب كے دائرہ ميں رہے گا، ليكن اگر آپ كے ليے ايسا كرنے ميں مشقت ہے اور يہ خدشہ ہو كہ مواصلات نہيں ملے گى، يا پھر آپ گھر ليٹ پہنچيں گے تو گھر پہنچ كر نماز ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ آپ كا غالب گمان يہ ہو كہ آپ عشاء كى نماز سے قبل گھر پہنچ جائينگے، اور افطارى كے ليے آپ اپنے ساتھ كھجوريں لے سكتے ہيں تا كہ راستہ ميں افطارى كى جا سكے.

ليكن اگر آپ كا سوال يہ ہو كہ مشقت كى بنا پر رمضان المبارك ميں روزہ نہ ركھنا، تو اس سلسلہ ميں سوال نمبر ( 43772 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے، اس كا مطالعہ كريں.

اللہ تعالى آپ كو اپنے مبحوب اعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے اور ان اعمال كى توفيق دے جن كى بنا پر اللہ تعالى راضى ہوتا ہے، اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى ميں آپ كى يہ حرص قابل ستائش ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب