الحمد للہ.
قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے جوکہ اللہ تعالی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور اس کی تلاوت عبادت ہے ۔
قرآن کریم کی یہ جامع اور مانع تعریف یہی ہے ۔
تعریف میں یہ اللہ تعالی کی کلام ہے کہنے سے بشروغیرہ کی کلام خارج ہوجاتی ہے ۔
اور ہمارا یہ قول کہ اللہ تعالی کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ہے ، اس ہر وہ جو دوسروں پر نازل ہوا خارج ہوتا مثلا تورات اور انجیل اور زبور ۔
اور ہمارا یہ قول کہ اس کی تلاوت عبادت ہے ، اس سے احادیث قدسیہ خارج ہوتی ہیں ۔
اور یہ قرآن کریم نورویقین اور مضبوط رسی ، اور صالح اور نیک لوگوں کا منھج ہے ، اس میں پہلے انبیاء و صالحین کی خبریں پائ جاتی ہيں ، اور یہ کیسے نہ ہو جس نے بھی ان حکم کی نافرمانی کی وہ ذلیلوں میں ہے ، اور اس میں ایسی آیات ہیں جو کہ اس جہان میں اللہ تعالی کی قدرت اور اس کے معجزات بیان کرتی ہیں، اور اس میں آدمی کی اصلیت بنان کی گئ ہے جو کہ ایک گندے پانی سے پیدا ہوا ہے ۔
اور اس قرآن کریم میں عقیدے کے وہ احکام ہیں جن کا ہرعاجزاور مطیع دل میں ہونا ضروری اور واجب ہے ، اور اس میں ایسے شرعی احکام پاۓ جاتے ہیں جو کہ حرام میں سے مباح و جائز اور باطل میں سے حق مبین کی وضاحت کرتے ہیں ۔
اور اس میں انسان کے انجام اور اس اٹھاۓ جانے کا بیان ہے یا تو وہ جہنم میں ذلیل وخوار ہو گا اور یا پھر جنت کے باغات اورچشموں اورکھیتوں اور امین جگہ میں مزے سے رہے گا ۔
( اللہ ہمیں جنتی بناۓ آمین ) ۔
اس قرآن کریم میں سینوں کی شفا اور اندھوں کے لۓ نور بصیرت ہے ، اللہ سبحانہ وتعالی کے ارشاد کا ترجمہ ہے :
اوریہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہيں مومنوں کے لۓ تو سرا سر شفا اور رحمت ہے ، ہاں ظالموں کو سواۓ نقصان کے اور کوئ زیادہ نہیں کرتا الاسراء ( 82 ) ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں :
اللہ تعالی اپنی اس کتاب کا بیان کررہے ہیں جو کہ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائ وہ قران کریم ہے جس کے آگے اور نہ ہی پیچھے باطل آسکتا ہے اور وہ حکیم اور تعریفوں والے کی طرف سے نازل کرد ہ اور ( مومنوں کے لۓ شفا اور رحمت ہے ) یعنی ان کے دلوں میں جو شک اور نفاق اور کجی وغیرہ کے امراض ہیں انہیں ختم کرنے والاہے ۔
تو قرآن مجید فرقان حمید ان سب بیماریوں سے شفا دیتا اور اسی طرح وہ ایسی رحمت ہے جس میں ایمان وحکمت اور خیر کی طلب ورغبت حاصل ہوتی ہے ، لیکن یہ سب کچھ صرف اس شخص کے لۓ ہے جو اس پر ایمان رکھتا اور اس کی تصدیق کرتا ، اور اس کی اتباع وپیروی کرتا ہے تو اس کےلۓ یہ شفا اور رحمت ہوگا ۔
لیکین کافر اور ظالم شخص اس قرآن کو سن کر اس سے اور زیادہ بعد اورکفر کا شکار ہوتا ہے ، تو یہ آفت کفر کی وجہ سے ہے نہ کہ قرآن کریم سے اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
آپ کہہ دیجۓ ! کہ یہ تو ایمان والوں کے لۓ ھدایت وشفا ہے اور جوایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو ( بہرا پن اور ) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے ، یو وہ لوگ ہیں جو کسی بہت زیادہ دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں فصلت ( 44 ) ۔
اور اللہ رب العزت کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ اورجب کوئ سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کا ایمان زیادہ کیا ہے ، تو جو لوگ ایمان والےہیں اس سورت نے ا ن کے ایمان کو زیادہ کیا اور وہ خوش ہو رہے ہیں ۔
اور جن لوگوں کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نےان میں ان کی گندگی کےساتھ اور گندگی بڑھا دی اور وہ حالت کفر میں ہی مر گۓ } التوبۃ ( 124 - 125 ) ۔
اس موضوع میں آیات بہت ہی زیادہ ہیں ۔
اوریہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہيں مومنوں کے لۓ تو سرا سر شفا اور رحمت ہے ۔
قتادہ رحمہ اللہ تعالی اللہ تعالی کے اس فرمان کے بارہ میں کہتے ہیں کہ : مومن آدمی جب اسے سنتا ہے اس سے نفع حاصل کرتا اور اسے حفظ کرتا اور اسے سمجھتا ہے ۔
ہاں ظالموں کو سواۓ نقصان کے اور کوئ زیادہ نہیں کرتا
یعنی نہ تو وہ اس سے نفع حاصل کرتا اور نہ ہی اسے حفظ کرتا اور سمجھتا ہے ، تو اللہ تعالی نے یہ قرآن مومنوں کے لۓ شفا اور رحمت بنایا ہے ۔
تفسیر ابن کثیر ( 3 / 60 ) ۔
اور اللہ تبارک وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
اے لوگوں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئ ہے جوکہ نصیحت اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لۓ شفا ہے ، اور ایمان والوں کے لۓ راہنمائ کرنے والی اور رحمت ہے یونس ( 57 ) ۔
اور اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
اوراگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن بناتے تو وہ کہتے کہ اس کی آیات صاف صاف کیوں نہیں بیان کی گئيں ؟ یہ کیا کہ کتاب عجمی اور آپ رسول عربی ؟ آپ کہہ دیجۓ ! کہ یہ تو ایمان والوں کے لۓ ھدایت وشفا ہے اور جوایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو ( بہرا پن اور ) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے ، یو وہ لوگ ہیں جو کسی بہت زیادہ دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں فصلت ( 44 ) ۔
اور اس قرآن کریم میں لوگوں کے لۓ گمراہی سے حق کی طرف ھدایت ہے ، اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اس کتاب (کے اللہ تعالی کی کتاب ہونے ) میں کسی قسم کا کوئ شک نہیں اور پرہیز گاروں کے لۓ ھدایت دینے والی ہے البقرۃ ( 2 ) ۔
اور رب سماء وارض کا ارشاد ہے :
اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تا کہ آپ مکہ والوں اور اس کے ارد گرد کے لوگوں کو خبردار کردیں ، اور جمع ہونے کے دن سے جس کے آنے میں کوئ شک نہیں ڈرا دیں ، ایک گروہ جنت میں اور ایک گروہ جہنم میں ہو گا الشوری ( 7 ) ۔
اور اللہ رب العزت کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے ، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے ؟
لیکن ہم نے اسے نور بنایا ، اس کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ھدایت دیتے ہیں ، بیشک آپ سیدھے راہ کی راہنمائ کر رہے ہیں ، اس اللہ تعالی کے راہ کی جس کی ملکیت میں آسمانوں اور زمین کی ہر چیز ہے ، آگاہ رہو سب کام اللہ تعالی ہی طرف لوٹتے ہیں } الشوری ( 52 - 53 ) ۔
اور اس قرآن کریم میں وہ کچھ ہے جس کاشمار کرنے والوں کی کوشش اور جھد بھی شمار نہیں کرشکتی ، تو ہر اس شخص پر جو دارین کی سعادت چاہتا ہے واجب ہے کہ وہ اس کے احکام پر عمل کرے اوراسے حاکم مانے ۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
اور جب دلائل اور معجزات سے یہ ثابت ہے کہ قرآن ہی وہ عھد ہے جس کا اللہ تعالی نے ہم سے اقرار لیا اور ہم پر اس پر عمل کرنا لازم قرار دیا ہے ، اور یہ بات صحیح طور پر منقول ہے جس میں کسی قسم کا بھی شک ہی نہیں کیا جاسکتا کہ یہ قرآن مصاحف میں مکتوب ہے جو کہ دنیامیں کونے کونے مشہور ہے ، اس میں جو کچھ بھی ہے اس پر عمل اور اطاعت کرنا واجب ہے ، اور یہی وہ اصل ہے جس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے کیونکہ ہم نے اسی قرآن میں یہ پایا ہے کہ :
اور زمین پر جتنے قسم کے بھی چلنے والے جانداراور جتنے قسم کے پرندے جو کہ اپنے دونوں پروں سے اڑتے ہیں ان میں کوئ ایسی قسم نہیں جو کہ تمہاری طرح کر گروہ نہ ہوں ، ہم نے دفترمیں کوئ چیز نہیں چھوڑی پھرسب اپنے رب کی کےپاس جمع کیے جائيں گے الانعام ( 38 ) ۔
تو قرآن کریم میں جو بھی امر اور نہی ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے ۔
الاحکام ( 1 / 92 ) ۔
واللہ تعالی اعلم .