الحمد للہ.
سوال نمبر ( 12660 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ:
( اگر مسلمان كسى اسلامى ملك ميں رہائش پذير ہو جہاں مہينہ شروع اور ختم ہونے ميں رؤيت ہلال پر اعتماد كيا جاتا ہو، تو اس كے ليے اس ملك كى متابعت واجب ہے، اور اس كے ليے نہ تو روزہ ركھنے ميں ملك كى مخالفت جائز ہے، اور نہ عيد منانے ميں.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" روزہ اس دن ہے جس دن تم روزہ ركھو، اور عيد الفطر اس دن ہے جس روز تم عيد الفطر مناؤ، اور عيد الاضحى اس روز ہے جس دن تم قربانى كرو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2324 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 697 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح كہا ہے.
آئمہ كرام كا اس ميں اختلاف ہے كہ اگر چاند نظر آ جائے تو كيا سب مسلمانوں پر روزہ ركھنا فرض ہے ؟
يا صرف قريبى علاقے اور ملك والوں پر روزہ ركھنا فرض ہے، دور والوں پر نہيں ؟ يا كہ ان لوگوں پر روزہ ركھنا فرض ہے جن كے مطلع جات ايك ہيں ؟
اس ميں علماء كرام كے كئى ايك اقوال ہيں:
مسلمان شخص كو اپنے علاقے اور ملك كے ثقہ علماء كے مطابق عمل كرنا چاہيے جو ان اقوال ميں سے كسى ايك قول دلائل كے اعتبار سے راجح قرار ديتے ہوں، اور كسى شخص كو بھى اكيلے روزہ نہيں ركھنا چاہيے، اور نہ ہى اكيلے عيد منانى چاہيے.
اس مسئلہ ميں ہم نے سوال نمبر ( 50487 ) كے جواب ميں كبار علماء كرام كميٹى كے علماء كا قول بيان كيا ہے كہ:
" كبار علماء كميٹى كے ركن علماء كى رائے ميں يہ معاملہ اسى طرح رہنا چاہيے جس طرح تھا، اور اس موضوع كو زيادہ اختلاف كا باعث نہيں بنانا چاہيے، اور ہر اسلامى ملك كو اپنے علماء اور اس مسئلہ ميں مشار اليہ رائے ميں كوئى ايك رائے اختيار كرنے كا حق حاصل ہے، كيونكہ دونوں كے پاس دلائل ہيں " انتہى.
تفصيل ديكھنے كے ليے اس مطالعہ ضرور كريں.
اس بنا پر؛ آپ كو اپنے ملك كى متابعت كرنى چاہيے جو مہينہ كى ابتدا اور انتہاء، اور روزہ ركھنے اور عيد منانے ميں رؤيت ہلال پر اعتماد كرتا ہے، آپ كا ايسا كرنا بہت بہتر اور اچھا ہے، ايسا كرنے پر آپ كے ذمہ كوئى قضاء نہيں.
واللہ اعلم .