الحمد للہ.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
بلكہ وہ سرى قرآت كرے گا، اور بلند آواز سے قرآت نہيں كرےگا؛ كيونكہ مسبوق شخص جب باقى مانندہ نماز ميں منفرد ہو كر نماز ادا كرے گا تو وہ منفرد يعنى اكيلے كے حكم ميں ہو گا، جو نماز اس نے جماعت كے ساتھ پائى وہ مقدى كے حكم ميں تھى.
اس ليے اگر مسبوق شخص باقى مانندہ نماز ميں بھول جائے تو سجدہ سہو كرے گا، اگر ايسا ہى ہے تو پھر منفرد اس ميں جھرى قرآت كرے گا جس ميں منفرد جھرى قرآت كرتا ہے، لہذا جن علماء كا يہ مذہب ہے كہ منفرد شخص مغرب اور عشاء اور فجر كى نماز ميں جھرى قرآت كرے گا، تو جب وہ پہلى دو ركعتيں بطور قضاء ادا كرے تو ان ميں قرآت جھرى كرے گا.
اور جس كا مذہب يہ ہو كہ منفرد جھرى قرآت نہيں كرے گا، تو اس كے نزديك مسبوق شخص بھى جھرى قرآت نہيں كرےگا.
اور جمعہ كى نماز كوئى منفرد شخص ادا نہيں كريگا، تو اس طرح اس ميں منفرد شخص كى جھرى قرآت كا تصور بھى نہيں ہو سكتا، اور مسبوق يعنى جس كى كوئى ركعت رہ گئى ہو وہ منفرد كى طرح ہى ہے تو وہ جھرى قرآت نہيں كريگا، ليكن وہ تو ضمنا اور تابع كے اعتبار سے جمعہ پانے والا ہے.
تابع ميں وہ شرط نہيں جو متبوع ميں ہوتى ہيں، اس ليے مسبوق العدد كے ليے قضاء ميں وہ شروط نہيں ہيں.
ليكن يہ سنت چلى آئى ہے كہ جس نے نماز كى ايك ركعت پالى اس نے نماز پالى تو اس نے جمعہ پا ليا، جس طرح كہ كسى نے غروب شمس سے قبل ايك ركعت پالى اور طلوع شمس سے قبل جس نے ايك ركعت پالى تو اس نے نماز پالى، چاہے اس كى باقى مانندہ نماز وقت سے خارج تھى.
واللہ تعالى اعلم.
ديكھيں: فتاوى الكبرى لابن تيميہ جلد ( 2 ) كتاب الجمعہ
واللہ اعلم .