جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كيا وحشيت اور سخت روئى كى صفت سے معروف شخص كے جنازے ميں نہ جائے ؟

67576

تاریخ اشاعت : 10-06-2008

مشاہدات : 6186

سوال

كيا مسلمان شخص كے ليے سختى اور وحشيت كى صفات سے معروف شخص كے جنازے كى رسومات ميں شركت كرنے سے اجتناب كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان شخص كے جنازے ميں شركت اور اس كى نماز جنازہ ادا كرنا حتى كہ دفن تك شركت كرنا مسلمان كے حقوق ميں سے ہے، جيسا كہ بخارى اور مسلم ميں حديث مروى ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" مسلمان كے مسلمان پر چھ حق ہيں: سلام كا جواب دينا، مريض كى تيمار دارى كرنا، اور جنازے ميں شركت كرنا، دعوت قبول كرنا، اور چھينك كى دعا پڑھنے والے كو دعا دينا"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1240 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2162 )

اور مسلم شريف كى روايت ميں ہے:

" مسلمان شخص كى اپنے بھائى پر پانچ چيزيں واجب ہيں... "

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہاں وجوب كفايہ مراد ہے" انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 3 / 136 ).

يعنى جنازے ميں شركت كرنا فرض كفايہ ہے، جب كچھ لوگ اس ميں شركت كرليں تو باقى افراد سے ساقط ہو جائےگا، اور جب سب افراد ہى اسے ترك كرديں تو وہ گنہگار ہونگے.

اور جنازے ميں شركت كرنے كا حكم بخارى اور مسلم كى مندرجہ ذيل حديث ميں آيا ہے:

براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں سات كام كرنےكا حكم ديا اور سات اشياء سے منع فرمايا: اور انہوں نے ذكر كيا: ( مريض كى عيادت كرنا، جنازے ميں شركت كرنا، چھينكنے والے كو دعا دينا، سلام كا جواب دينا، مظلوم كى مدد كرنا، دعوت دينے والے كى دعوت قبول كرنا، اور قسم پورى كرنا )

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2445 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2066 )

اور نمازہ جنازہ كى ادائيگى اور ميت دفن كرنے تك جنازہ ميں شركت كرنے كى فضيلت بيان كرتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو جنازہ ميں نماز كى ادائيگى تك شركت كرتا ہے اسے ايك قيراط اور جو شخص دفن كرنے تك شركت كرتا ہے اسے دو قيراط ملتے ہيں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا گيا كہ دو قيراط كيا ہيں؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو عظيم پہاڑوں كى طرح "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1325 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 945 ).

اس فضيلت كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بعض لوگوں كى نماز جنازہ ادا نہيں كى، ان كے ليے بطور سزا اور عبرت اور ان كے افعال سے انہيں ڈانٹنے اور منع كرنے كے ليے، لھذا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہ تو مال غنيمت ميں خيانت كرنے والے شخص كى نماز جنازہ ادا كى اور نہ ہى خود كشى كرنے والے كى.

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے جابر بن سمرۃ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث بيان كى ہے وہ كہتے ہيں:

( نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايك شخص لايا گيا جس نے تيروں كے پھالے كے ساتھ خود كشى كرلى تھى تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى نماز جنازہ نہيں پڑھائى )

صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 978 ).

المشاقص مشقص كى جمع ہے، اور تير كى تيز اور چپٹى سائڈ كو كہا جاتا ہے.

ابو داود اور نسائى اور ابن ماجۃ رحمہم اللہ نے زيد بن خالد جہنى رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث روايت كى ہے كہ:

( نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ ميں سے ايك صحابى خيبر كے دن فوت ہو گيا تو اس كا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے ذكر كيا گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اپنے ساتھى كى نماز جنازہ ادا كرلو"

تو اس كى وجہ سے لوگوں كے چہرے متغير ہو گئے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

( تمہارے ساتھى نے اللہ كے راستے ميں خيانت كى ہے )

تو ہم نے اس كا سامان ديكھا تو اس ميں يہوديوں كا ايك ہار جس كى قيمت دو درہم بھى نہ تھى ملا )

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2710 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1959 ) سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 2848 ).

الغلول: غنيمت كا مال تقسيم سے قبل خفيہ طريقہ سے لے لينے كو غلول كہتے ہيں.

اہل علم نے اس حديث سے يہ مسئلہ اخذ كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتداء كرتے ہوئے سنت يہ ہے كہ امام كو حق حاصل ہے كہ وہ غنيمت مين خيانت كرنے والے اور خود كشى كرنے والے شخص كا نماز جنازہ خود نہ پڑھائے.

اور يہاں دو مسئلے ہيں:

پہلا مسئلہ:

كيا امام كے ساتھ دوسرے اہل علم و فضل كو بھى ملحق كيا جاسكتا ہے؟

دوسرا مسئلہ:

كيا مال غنيمت ميں خيانت اورخود كشى كرنے والے شخص كے ساتھ اس طرح كے دوسرے يا ان سے بھى سخت افراد كو بھى ملايا جا سكتا ہے، مثلا ڈاكو اور لٹيرے، اور ظالم اور كبيرہ گناہ كے مرتكب اور ظاہر گناہ اور معصيت كرنے والے افراد؟

جواب:

اس كا جوب يہ ہے كہ جى ہاں امام كے ساتھ دوسرے اہل علم و فضل كو ملحق كيا جا سكتا ہے، اور مال غنيمت ميں خيانت كرنے والے اور خود كشى كرنے والے شخص كے ساتھ اس طرح كے دوسرے يا ان سے بھى سخت افراد كو ملحق كيا جا سكتا ہے.

باجى رحمہ اللہ تعالى " المنتقى " ميں كہتے ہيں:

اور ائمہ كرام اور اہل علم و فضل كا كبيرہ گناہ كے مرتكبين پر نماز جنازہ ادا نہ كرنے كى يہ سنت ہے، كہ اس طرح كے فعل كے مرتكبين كے ليے بطور سزا اور عبرت جنازہ نہ پڑھايا جائے، اور اپنے علاوہ كسى اور كو اس كى نماز جنازہ پڑھانے كا حكم دينا اس بات كى دليل ہے كہ انہيں ايمان كا حكم ديا جائےگا، اور وہ اپنے ان گناہوں اور معصيت كى بنا پر ايمان سے خارج نہيں ہوئے. انتہى

اور شيخ الاسلام ابن تيميۃ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جس نے اپنى زندگى ميں سوائے رمضان كے نہ تو زكاۃ ادا كى اور نہ ہى نماز، اس كے مرنے كى صورت ميں اہل علم كو چاہيے كہ اس جيسے لوگوں كے ليے بطور سزا اور عبرت اس كى نماز جنازہ نہ پڑھائے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى خودكشى كرنے والے اور مال غنيمت ميں خيانت كرنے والے اور اس مقروض كى نماز جنازہ نہيں پڑھائى جس نے قرض ادا نہيں كيا گيا ليكن اس كى بعض لوگ نماز جنازہ ضرور پڑھيں....

اور جو شخص فسق كا اظہار كرتےہوئے مرا اور اس ميں كچھ نہ كچھ ايمان ہے جس طرح كہ مرتكبين كبيرہ ہيں، جو كوئى اس طرح كے لوگوں كے ليے بطور سزا ان كى نماز جنازہ نہيں پڑھاتا اس نے بہتر اور اچھا كيا، اور جس نے اللہ تعالى كى رحمت كى اميد كرتے ہوئے اس كى نماز جنازہ پڑھا دى اور اس كے منع كرنے ميں كوئى راجح مصلحت بھى نہيں تھى تو اس نے بھى اچھا اقدام كيا اور اگر وہ ظاہر ميں رك جائے اور باطن ميں اس كے ليے دعا كرے تا كہ وہ دونوں مصلحتوں ميں جمع كر سكے، تو دونوں ميں سے ايك كے فوت ہو جانے سے بہتر ہے. انتھى

ديكھيں: الاختيارات صفحہ نمبر ( 80 ).

اور المرداوى نے" الانصاف " ميں امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے نقل كيا ہے كہ:

مرتكبين كبيرہ پر نماز جنازہ نہيں پڑھى جائےگى.

اور وہ كہتے ہيں: اور المجد ( شيخ الاسلام ابن تيميۃ كے دادا مجد الدين ابن تيميۃ ) نے اس مسلك كو اختيار كيا ہے كہ:

جو كوئى بھى بغير توبہ كے ظاہرمعصيت و گناہ پرفوت ہو اس كى نماز جنازہ ادا نہيں كى جائے گى.

الفروع ميں كہتے ہيں: اور يہ صحيح ہے. انتہى

ديكھيں: الانصاف ( 2 / 535 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اگر كوئى قائل يہ كہے كہ:

كيا يہ ضرورى نہيں كہ يہ حكم ہر بستى اور علاقے كے امير يا قاضى يا مفتى تك پہنچايا جائے، يعنى جس كے نماز جنازہ نہ پڑھانے سے عبرت اور سزا ہو، تو كيا يہ حكم ان كى طرف منتقل ہو سكتا ہے؟

جواب:

جى ہاں، ان كى طرف حكم منتقل ہو سكتا ہے، لہذا ہر وہ شخص جس كے نماز جنازہ نہ پڑھنے ميں سزا اور عبرت ہو اس كے ليے مسنون ہے كہ وہ خيانت كرنے والے اور خودكشى كرنے والے كى نماز جنازہ نہ پڑھائے.

پھر شيخ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

مسئلہ: كيا غنيمت ميں خيانت كرنے والے اور خود كشى كرنے والے كے ساتھ اس طرح كے دوسرے افراد يا ان سے بھى زيادہ مسلمانوں كو اذيت دينے والے افراد بھى ملحق ہو سكتے ہيں، مثلا ڈاكو اور لٹيرے ؟

جواب:

مشہور مذہب تو يہى ہے كہ ملحق نہيں كيا جا سكتا.

دوسرا قول:

جو بھى ان كى طرح يا ان سے بھى زيادہ سخت ہوں تو ان كى نماز جنازہ امام اور امير نہ پڑھائے؛ كيونكہ جب شريعت كسى جرم اور معصيت پر كوئى سزا لاتى ہے تو وہ اس طرح كے دوسرےافراد يا اس سے بھى سخت افراد كو ملحق ہوتى ہے.

لھذا جب اس خيانت كرنے والے نے قليل سى چيز كى خيانت كى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى نماز جنازہ نہيں پڑھائى تو پھر آپ كا اس كے متعلق كيا خيال ہے جو مسلمانوں كو راستوں ميں لوٹے اور ڈاكے ڈالے، اور انہيں قتل كر كے ان كے مال ہتھيا لے، اورانہيں خوفزدہ كرے؟

كيا يہ اس كا زيادہ حق نہيں ركھتا كہ اسے سزا دى جائے؟

جواب:

كيوں نہيں، اوراسى صحيح يہى ہے كہ: ان دونوں گناہوں اور معصيت كو برابر نہيں كيا، اور امام نے اس كى نماز جنازہ نہ پڑھانے كى مصلحت ديكھى تو اس كى نماز جنازہ نہيں پڑھائى جائےگى" انتہى

ماخوذ از: الشرح الممتع ( 5 / 442 ).

اور اس بنا پر جو شخص بھى سختى اور قسوت قلبى اور وحشيت كے ساتھ معروف تھا، اس طرح كہ وہ كبيرہ گناہ كا مرتكب تھا، يا پھر علانيہ طور پر معاصى اور گناہ كا مرتكب ہوتا تھا، تو ضرورى ہے كہ اہل علم و فضل اور علماء جو لوگوں ميں كچھ اثرو رسوخ ركھتے ہيں وہ اس كى نماز جنازہ نہ پڑھائيں، تا كہ اس طرح كےلوگوں كو عبرت حاصل ہو اور اس طرح كى معصيت و گناہوں اور ان كے مرتكبين سے نفرت پيدا كى جاسكے.

ليكن عام افراد جن كا لوگوں ميں كوئى اثرورسوخ نہيں اور ان كےنماز جنازہ نہ پڑھنے سے كوئى نتيجہ نہيں نكلتا اور كوئى مصلحت نہيں ان كے ليے ضرورى ہے كہ وہ اس كے جنازے ميں شركت كريں اور اس كى نماز جنازہ پڑھيں تا كہ اجروثواب حاصل ہو، جو كہ مسلمان كا اپنے بھائى پر حق ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب