سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

عورت كا گھر سے باہر نكلتے وقت سرمہ لگانا

67897

تاریخ اشاعت : 29-03-2008

مشاہدات : 11419

سوال

جب ميں گھر سے باہر نكلنے لگوں تو آنكھوں ميں سرمہ كيوں نہيں لگا سكتى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہر مومن عورت پر واجب ہے كہ وہ غير محرم مردوں سے اپنى زينت اور بناؤ سنگھار چھپا كر ركھے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ النور ( 31 ).

زينت ميں سرمہ، زيور، اور ميك اپ اور بناؤ سنگھار وغيرہ سب شامل ہيں، اور آيت ميں بعل سے مراد خاوند ہے.

اور آيت كى ابتدا ميں جو فرمان بارى تعالى ہے كہ:

اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے النور ( 31 ).

تو يہاں ظاہر سے مراد كپڑے، اور اوڑھنى و برقع اور دوپٹہ، ہے، يا پھر وہ جو اس كے بغير قصد و ارادہ كے ظاہر ہو جائے، مثلا ہوا چلنے كى وجہ سے كپڑا اترنا وغيرہ.

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يعنى عورتيں كسى بھى اجنبى اور غير محرم مرد كے سامنے اپنى زينت ميں سے كچھ بھى ظاہر نہ كريں، صرف وہ جس كا چھپانا ممكن نہيں.

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں: مثلا چادر اور كپڑے.

يعنى عرب كى عورتوں كى جو عادت تھى كہ وہ سر پڑ اوڑھنى اور كپڑا اوڑھتى تھيں، اور جو كپڑوں كے نيچے سے ظاہر ہوتا اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ اس كا چھپانا ممكن نہيں، اور اس كى مثال عورتوں كے لباس ميں اس كى نيچے والى چادر كا كچھ حصہ ظاہر ہونا اور وہ جس كا چھپانا ممكن نہيں ہے " انتہى.

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 3 / 274 ).

اور بعض اہل علم نے ظاہرى زينت كى تفسير چہرہ اور ہاتھ كى ہے، ليكن يہ قول مرجوع ہے، عورت كے چہرہ كو ڈھانپنے كے وجوب بہت سارے دلائل ملتے ہيں، جو آپ كو سوال نمبر ( 11774 ) كے جواب ميں ملےگى آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

علامہ محمد امين شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ميرے نزديك دونوں مذكور اقوال ميں سے زيادہ ظاہر ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ قول ہے كہ: ظاہرى زينت وہ ہے جس كى جانب نظر مستلزم نہ ہو كہ اجنبى عورت كے بدن سے كچھ نظر نہ آئے ہم يہ اس قول كو اظہر اس ليے كہا ہے كہ: كيونكہ سب اقوال ميں محتاط قول يہى ہے، اور پھر فتنہ و خرابى كے اسباب سے بھى بہت دور ہے، يہ مردوں اور عورتوں كے دلوں كے ليے زيادہ پاكيزگى كا باعث ہے.

يہ مخفى نہيں كہ عورت كا چہرہ سارى خوبصورتى و جمال كى اصل اور جڑ ہے، اور چہرہ ديكھنا سب سے زيادہ پرفتن ہے؛ جيسا كہ شريعت اسلاميہ كے قواعد اصول پر جارى اور معلوم ہے، يہ مكمل حفاظت اور كسى غلط كام ميں پڑنے سے مكمل دورى ہے " انتہى.

ديكھيں: اضواء البيان ( 6 / 200 ).

اصل يہى ہے كہ عورت اپنا سارا اور مكمل چہرہ چھپائے اور ڈھانپے، ليكن اس كے ليے آنكھيں ننگى ركھنا مباح كيا گيا ہے، تا كہ وہ ان آنكھوں سے ديكھ سكے، ليكن شرط يہ ہے كہ سرمہ لگا ہونے كى بنا پر آنكھيں ننگى كرنے ميں فتنہ و خرابى پيدا نہ ہوتى ہو، يا پھر نقاب كا سوراخ بہت زيادہ كھلا نہ كيا گيا ہو.

نقاب پہننے اور آنكھيں ننگى ركھنے كى دليل صحيح بخارى كى درج ذيل روايت ہے.

عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" احرام كى حالت ميں عورت نقاب مت پہنے، اور نہ ہى دستانے پہنے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1838 ).

تو يہ حديث اس پر دلالت كرتى ہے كہ حج اور عمرہ كے احرام والى عورت كے علاوہ عورت كے ليے نقاب پہننا جائز ہے.

ابو عبيد رحمہ اللہ عرب كے ہاں نقاب كا وصف بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

وہ كپڑا جس سے آنكھ ظاہر ہوتى ہو، اور عرب كے ہاں يہ الوصوصۃ اور البرقع كے نام سے معروف ہے "

ديكھيں: فتاوى اللنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 171 ).

اس زينت كو ظاہر نہ كرنے ميں حكمت يہ ہے كہ: يہ عورت كى حفاظت اور اس كى عفت و عصمت محفوظ كرنے كے ليے ہے، اور اس سے فتنہ ميں پڑنے كا سد ذريعہ ہے، اور اسےغلط طريقہ پر لگانے كا طمع ختم كرنا ہے، كيونكہ بيمار دل كے مريض افراد زينت ظاہر كرنے والى عورت ميں طمع كرتے ہيں،اور پردہ كرنے والى شرم و حياء اور عفت و عصمت كى مالك عورت سے دور بھاگتے ہيں.

شريعت اسلاميہ نے مردوں كا عورتوں اور عورتوں كا مردوں سے فتنہ ميں پڑنے كے تمام ذرائع بند كيے ہيں، اسى ليے نظريں نيچى ركھنے، اور بے پردگى، اور مرد و عورت كا اختلاط حرام كيا ہے، اور عورت كو خوشبو لگا كر گھر سے باہر نكلنے سے منع كيا، اور بغير محرم كے سفر سے بھى منع كيا ہے، جو كہ شريعت كے كمال اور اتمام ميں شامل ہے.

اس ليے كہ مرد فطرتى طور پر عورت سے تعلق ركھنے اور اس سے متاثر ہوتا ہے، اور اگر يہ سب دروازے بند نہ كيے جائيں تو فتنہ و خرابى پيدا ہو گى، اور فساد عام ہو جائيگا، جيسا كہ شريعت سے عارى معاشروں كى حالت كا مشاہدہ كيا گيا ہے.

مستقل كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

سوال:

مصر ميں بہت سارى عورتيں اپنى آنكھوں ميں سرمہ لگاتى ہيں، اور جب ميں انہيں كہتى ہوں كہ جب زينت اور خوبصورتى كے ليے لگايا جائے تو يہ حرام ہے، تو وہ مجھے جواب ديتى ہيں، يہ سنت ہے، آيا يہ بات صحيح ہے ؟

جواب:

سرمہ لگانا مشروع ہے، ليكن عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنى زينت اور بناؤ سنگھار ميں سے كچھ بھى اپنے خاوند اور محرم مرد كے علاوہ كسى اور كے سامنے ظاہر كرے، چاہے وہ سرمہ ہو يا كچھ اور كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ النور ( 31 ). انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 128 ).

حاصل بحث يہ ہوا كہ:

عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنا سرمہ اجنبى مردوں كےسامنے ظاہر كرے، كيونكہ يہ اس زينت ميں شامل ہوتا ہے جسے چھپانے كا حكم ديا گيا ہے، اور اگر عورت كا ايك گھر سے نكل كر دوسرے گھر جانا اس طرح ہو كہ راستے ميں اسے كوئى اجنبى مرد نہ ديكھے تو پھر اس وقت آنكھوں ميں سرمہ لگانے ميں كوئى حرج نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب