جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

دبر ميں وطئ كرنا سے نكاح پر اثر

6792

تاریخ اشاعت : 06-07-2009

مشاہدات : 14580

سوال

ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ اگر كوئى خاوند بيوى كى دبر استعمال كرے تو كيا اس كى شادى باطل ہو جاتى ہے اور كيا دوبارہ شادى كى جائيگى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

تمہارى بيوياں تمہارى كھيتياں ہيں تم اپنى كھيتيوں ميں جس طرح چاہو آؤ اور اپنے ليے ( نيك اعمال ) آگے بھيجو اور اللہ تعالى سے ڈرتے رہا كرو اور جان ركھو كہ تم اس سے ملنے والے ہو اور ايمان والوں كو خوشخبرى سنا ديجئے البقرۃ ( 223 ).

لفظ حرث يعنى كھيتى يہ فائدہ ديتا ہے يہ اباحت صرف فرج يعنى قبل ميں ہو گا خاص كر جبكہ وہ اولاد پيدا ہونے كى كھيتى ہے، يہاں مشابہت يہ دى گئى ہے كہ ماں كے رحم ميں نطفہ ڈالا جاتا ہے جس سے نسل پيدا ہوتى ہے، جس طرح زمين ميں بيج ڈالا جاتا ہے جس سے نباتات اگتى ہيں كيونكہ يہ دونوں ميں مادہ ہے.

اور قولہ: " انى شئتم " يعنى جس طرف سے بھى چاہو چاہے پچھلى جانب سے يا اگلى جانب سے اسے بٹھا كر يا لٹا كر ليكن جماع حرث يعنى كھيتى ميں ہو ( يعنى فرج جہاں سے بچہ پيدا ہوتا ہے ).

شاعر كا كہنا ہے:

رحم تو ہمارے ليے كھيتياں ہيں ہم پر تو صرف اس ميں بيج بونا ہے اور اللہ كے ذمہ اس كو اگانا.

ابن خزيمہ بن ثابت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يقينا اللہ تعالى حق سے نہيں شرماتا، تم عورتوں كى دبر كو استعمال مت كرو "

مسند احمد ( 5 / 213 ) يہ حديث حسن ہے.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو شخص اپنى بيوى كى دبر استعمال كرتا ہے اللہ تعالى اس كى طرف ديكھے گا بھى نہيں "

اسے ابن ابى شيبہ ( 3 / 529 ) اور ترمذى حديث نمبر ( 1165 ) ميں روايت كيا اور اسے حسن قرار ديا ہے.

ديكھيں: نيل المرام تاليف صديق حسن خان ( 1 / 151 - 154 ).

ليكن اگر كسى شخص نے ايسا كر ليا تو اس كى بيوى كو طلاق شمار نہيں ہو گى جيسا كہ اكثر لوگوں ميں مشہور ہے كيونكہ اس كى شريعت ميں كوئى دليل نہيں ملتى.

ليكن يہ ہے كہ علما كہتے ہيں اگر كسى شخص كى يہ عادت بن جائے تو بيوى كے ليے اس سے طلاق حاصل كر سكتى ہے كيونكہ يہ فسق ہے اور وہ اس فعل كى بنا پر بيوى كو اذيت سے دوچار كر رہا ہے.

اور اسى طرح شادى كى غرض اور مقصد بھى اس سے حاصل نہيں ہوتا، بيوى كو اس خبيث اور گندے كام كا ڈٹ كر مقابلہ كرنا چاہيے اور اپنے خاوند كو نصيحت كرے اور اللہ كا ڈر پيدا كرے اور اللہ كى حدود سے تجاوز كرنے والے كى سزا ياد دلائے، اگر تو خاوند اس فعل سے توبہ كر لے تو اس كے ساتھ باقى رہنے ميں كوئى مانع نہيں، اور اس سے تجديد نكاح كى ضرورت نہيں ہو گى.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد