الحمد للہ.
مذاہب اربعہ كے جمہور علماء كرام وغيرہ كا مسلك يہى ہے كہ عيد كے خطبہ ميں دو خطبے ديے جائيں گے، جس طرح خطبہ جمعہ ميں كيا جاتا ہے ايك خطبہ كے بعد بيٹھا جائيگا.
المدونۃ ميں ہے:
امام مالك رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے: سب خطبے نماز استسقاء، اور عيدين، اور خطبہ حج، اور خطبہ جمعہ، سب ميں امام دونوں خطبوں كے مابين كچھ دير كے ليے بيٹھ كردونوں خطبوں ميں عليحدگى كرے گا" انتہى.
ديكھيں: المدونۃ ( 1 / 231 ).
اور كتاب الام ميں امام شافعى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" عبيد اللہ بن عبد اللہ بن عتبۃ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" سنت يہ ہے كہ امام عيدين ميں دو خطبے دے، اور دونوں كے مابين كچھ دير كے ليے بيٹھے، ( امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں ) اور اسى طرح نماز استسقاء، اور چاند اور سورج گرہن، اور حج كا خطبہ، اور ہر جماعت والا خطبہ ميں بھى " انتہى
ديكھيں: الام ( 1 / 272 ).
مزيد تفصيل كے ليے بدائع الصنائع ( 1 / 276 ) اور المغنى ( 2 / 121 ) بھى ديكھيں.
امام شوكانى رحمہ اللہ تعالى مندرجہ بالا اثر پر تعليقا كہتے ہيں:
" اور دوسرى حديث جمعہ پر قياس كرتے ہوئے اسے راجح كرتى ہے، اور جيسا كہ معلوم ہے كہ عبيد اللہ بن عبد اللہ تابعى ہيں، تو ان كا يہ كہنا: " سنت ہے " اس بات كى دليل ہے كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے، جيسا كہ اصول ميں ثابت ہے، اور نماز عيدين كے دونوں خطبوں كے مابين كچھ دير كے ليے بيٹھنے ميں مرفوع حديث وارد ہے، جسے ابن ماجہ رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے، اور اس كى سند ميں اسماعيل بن مسلم ہے، جو كہ ضعيف راوى ہے" انتہى
ماخوذ از: نيل الاوطار ( 3 / 323 ).
اور ابن ماجہ كى حديث نمبر ( 1279 ) جسے انہوں نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر يا عيد الاضحى كے ليے نكلے تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے كھڑے ہو كر خطبہ ارشاد فرمايا، پھر كچھ دير كے ليے بيٹھے، اور پھر كھڑے ہو گئے"
اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ضعيف ابن ماجہ ميں ذكر كيا اور اس كے متعلق منكر كہا ہے.
ابو داود كى شرح عون المعبود ميں ہے:
امام نووى رحمہ اللہ تعالى الخلاصہ ميں كہتے ہيں: ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ سے جو مروى ہے كہ انہوں نے فرمايا: نماز عيد ميں سنت يہ ہے كہ دو خطبے ديے جائيں اور ان دونوں كے مابين كچھ دير كے ليے بيٹھا جائے، يہ ضعيف اور غير متصل ہے، خطبہ كے تكرار ميں كچھ ثابت نہيں، اس ميں خطبہ جمعہ پر قياس كرتے ہوئے اعتماد كيا جاتا ہے" انتہى
ديكھيں: عون المعبود ( 4 / 4 ).
تو اس سے حاصل يہ ہوا كہ دونوں خطبوں كى دليل يہ ہے:
1 - ابن ماجہ كى حديث، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى كا اثر، اور يہ دونوں ہى ضعيف ہيں.
2 - عبيد اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ جو تابعى ہيں كا اثر.
3 - خطبہ جمعہ پر قياس.
4 - شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے ايك چوتھى چيز بھى ذكر كى ہے جس سے دليل لى جا سكتى ہے:
ان كا يہ كہنا: " دونوں خطبوں " يہ وہى چيز ہے جس پر فقھاء رحمہم اللہ چلے ہيں، كہ نماز عيد كے دو خطبے ہيں؛ كيونكہ يہ ابن ماجہ كى حديث ميں وارد ہے جس كى سند صحيح نہيں، اس كا ظاہر يہ ہے كہ وہ دو خطبے ديتے تھے اور جو شخص صحيحين اور باقى احاديث كا مطالعہ كرتا ہے اس كے ليے يہ ظاہر ہو گا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك ہى خطبہ ارشاد فرمايا كرتے تھے ليكن پہلا خطبہ ختم كرنے كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عورتوں كى جانب جاتے اور انہيں وعظ و نصيحت كرتے، اس ليے اگر ہم دو خطبوں كى مشروعيت ميں اسے اصل بنائيں تو اس كا احتمال ہے، باوجود اس كے يہ بعيد ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عورتوں كى جانب گئے اور انہيں خطبہ اس ليے ديا كہ ان تك خطبہ نہيں پہنچا تھا.
اور يہ احتمال ہے، اور يہ بھى احتمال ہے كہ ان تك خطبہ كى آواز پہنچى ہو ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں كوئى خاص بات كہنا چاہتے ہوں اور اسى انہيں ان كے ساتھ خاص اشياء كا وعظ كيا" انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 191 ).
مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
كيا عيد كے دو خطبے ہيں اور ان كے مابين بيٹھا جائيگا؟
تو كميٹى كا جواب تھا:
" نماز عيد كے بعد خطبہ عيد سنت ہے، اس كى دليل نسائى، ابن ماجہ اور ابو داود كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
عطاء رحمہ اللہ عبد اللہ بن السائب رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ عيد ميں حاضر ہوئے، جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز عيد پڑھا چكے تو فرمانے لگے:
" ہم خطبہ دينے لگے ہيں جو شخص خطبہ سننا چاہتا ہے وہ بيٹھا رہے، اور جو شخص جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے"
شوكانى رحمہ اللہ تعالى نيل الاوطار ميں كہتے ہيں:
" مصنف رحمہ اللہ كا كہنا ہے: اس ميں خطبہ مسنون ہونے كا بيان ہے، اگر خطبہ واجب ہوتا تو اس كو سننے كے ليے بيٹھنا بھى واجب ہوتا " اھـ
جو شخص عيد كے دو خطبے دے تو اس كے ليے خطبہ جمعہ پر قياس كرتے ہوئے دونوں خطبوں كے مابين كچھ ديرے كے ليے بيٹھنا مشروع ہے، اور اس ليے بھى كہ امام شافعى رحمہ اللہ تعالى نے عبيد اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے: سنت يہ ہے كہ نماز عيدين ميں امام دو خطبے دے اور دونوں خطبوں كے مابين كچھ دير كے ليے بيٹھے.
اور بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ:
نماز عيد ميں صرف ايك ہى خطبہ ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح احاديث ميں ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك خطبہ ہى ارشاد فرمايا" انتہى
واللہ تعالى اعلم.
ماخوذ از: فتاوى اسلاميہ ( 1 / 425 ).
فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا عيد ميں امام ايك خطبہ دے يا دو ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" اس سلسلے ميں ضعيف حديث وارد ہونے كى بنا پر فقھاء رحمہم اللہ تعالى كے ہاں مشہور يہى ہے كہ عيد كے دو خطبے ہيں، ليكن صحيح اور متفق عليہ حديث ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم صرف ايك خطبہ ارشاد فرمايا كرتے تھے، اور مجھے اميد ہے كہ اس معاملہ ميں وسعت ہے" انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 16 / 246 ).
اور شيخ رحمہ اللہ تعالى كا يہ بھى كہنا ہے:
" سنت يہ ہے كہ عيد كا ايك ہى خطبہ ہو، اور اگر دو خطبے ديے جائيں تو اس ميں بھى كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ بيان كيا جاتا ہے، ليكن عورتوں كو خاص كر نصيحت كرنے ميں سستى نہيں كرنى چاہيے، اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو خاص كر وعظ كيا تھا.
اور اگر امام لاؤڈ سپيكر ميں خطبہ عيد دے رہا ہو تو وہ خطبہ كے آخر ميں عورتوں كے وعظ خاص كرے، اور اگر وہ لاؤڈ سپيكر ميں خطبہ نہيں دے رہا اور عورتوں تك اس كى آواز نہيں پہنچ رہى تو امام خود ان كى طرف جائے اور اس كے ساتھ ايك يا دو شخص اور بھى ہوں اور عورتوں كو جو ميسر ہو وعظ كرے" انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 16 / 248 ).
جواب كا خلاصہ يہ ہوا:
يہ اجتھادى مسئلہ ہے، اور اس مسئلہ ميں وسعت ہے، سنت نبويہ ميں كوئى اس مسئلہ ميں كوئى فاصل اور قاطع نص نہيں، اگرچہ اس سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ ايك ہى خطبہ ارشاد فرمايا كرتے تھے، لہذا امام كى نظر ميں جو سنت كے زيادہ قريب ہے اسے وہ كرنا چاہے.
واللہ اعلم .