الحمد للہ.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سجدہ اور ركوع مكمل كرنے كا حكم ديا ہے.
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" تم ركوع اور سجدہ مكمل اور پورا كرو، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے بلا شبہ جب بھى تم سجدہ كرتے اور ركوع كرتے ہو ميں تمہيں اپنى پيٹھ پيچھے سے ديكھتا ہوں"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6268 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 425 ).
اور ركوع اور سجدہ پورا كرنے ميں يہ ہے كہ سجدہ اور ركوع ميں اطمنان كيا جائے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص مسجد ميں داخل ہوا اور نماز ادا كى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد كے ايك كونے ميں تشريف فرما تھے وہ شخص آيا اور سلام كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
" جاؤ جا كر نماز ادا كرو، تم نے نماز ادا نہيں كى، چانچہ وہ شخص گيا اور جا كر نماز ادا كى، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آكر سلام كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جاؤ جا كر نماز ادا كرو تم نے ابھى نماز ادا نہيں كى، تو وہ تيسرى بار ميں كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے نماز سكھائيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم نماز كے ليے كھڑے ہو تو پورى طرح وضوء كرو اور قبلہ رخ كھڑے ہو كر تكبير كہو، اور پھر تمہيں جو قرآن ياد ہے وہ پڑھو، پھر ركوع كرو حتى كہ ركوع ميں اطمنان ہو جائے، پھر ركوع سے اٹھو حتى كہ تم اطمنان سے كھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ كرو حتى كہ سجدہ ميں اطمنان كرلو، پھر اپنا سر اٹھاؤ حتى كہ صحيح طرح بيٹھ جاؤ پھر تم يہ اپنى سارى نماز ميں كرو"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 724 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 397 ).
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع اور سجدہ كو پورا نہ كرنا نماز كو باطل كرنا قرار ديا.
ابو مسعود انصارى بدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس شخص كى نماز ادا نہيں ہوتى جو شخص ركوع اور سجود ميں اپنى پيٹھ سيدھى نہيں كرتا"
سنن ترمذى حديث نمبر ( 265 ) ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے اسے حسن صحيح كيا ہے، سنن نسائى حديث نمبر ( 1027 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 855 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 870 ).
امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ كے صحابہ كرام اور ان كے بعد اہل علم كا عمل اس پر ہے، اور كى رائے ميں آدمى كو ركوع اور سجدہ ميں اپنى پيٹھ سيدھى كرنا چاہيے.
اور امام شافعى، احمد، اسحاق رحمہم اللہ كہتے ہيں:
ركوع اور سجود ميں جو شخص اپنى پيٹھ سيدھى نہيں كرتا اس كى نماز فاسد ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث ہے:
" اس شخص كى نماز ادا نہيں ہوتى جو شخص ركوع اور سجود ميں اپنى پيٹھ سيدھى نہيں كرتا"
سنن ترمذى ( 2 / 52 ).
ابو وائل حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے ايك شخص كو ديكھا كہ وہ اپنا ركوع اور سجدہ پورا نہيں كر رہا تھا، جب اس نے نماز مكمل كى تو حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ اسے كہنے لگے: تو نہيں نماز نہيں پڑھى، راوى كہتے ہيں: ميرے خيال ميں كہا: اگر تو ايسے ہى مرجائے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر نہيں مرے گا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 382 ).
اور ايك دوسرى روايت ميں ہے كہ:
زيد بن وہب كہتے ہيں كہ حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ نے ايك شخص كو ديكھا جو ركوع اور سجدہ پورا نہيں كر رہا تھا تو وہ كہنے لگے:
تو نے نماز نہيں پڑھى، اگر تو اسى حال ميں مر جائے تو اس طريقہ اور فطرت پر نہيں مرے گا جس پر اللہ تعالى نے محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدا فرمايا تھا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 758 ).
اور سجدہ ميں پيشانى اور ناك زمين كے ساتھ لگانا ضرورى ہے.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مجھے سا ہڈيوں پر سجدہ كرنے كا حكم ديا گيا ہے، پيشانى پرـ اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے ناك كى طرف اشارہ كياـ اور دونوں ہاتھوں، اور دونوں گھٹنوں، اور دونوں پاؤں كے كناروں پر، اور لباس اور بالوں كو اكٹھا نہ كريں اور انہيں نہ سنواريں"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 779 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 490 ).
اور لمبا سجدہ كرنے ميں كوئى مانع نہيں، خاص كر جب نمازى اكيلا ہو يا پھر قيام الليل يا چاند يا سورج گرہن كى نماز ہو.
اسماء بنت ابى بكر رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سورج گرہن كى نماز پڑھائى اور لمبا قيام كيا، پھڑ ركوع كيا اور اسے لمبا كيا، پھر لمبا قيام كيا پھر ركوع كيا تو لمبا ركوع كيا پھر ركوع سے اٹھے پھر سجدہ كيا اور لمبا سجدہ كيا پھر اوپر اٹھے پھر سجدہ كيا اور لمبا سجدہ كيا پھر لمبا قيام فرمايا پھر ركوع كيا اور ايك لمبا ركوع كيا پھر اٹھے اور لمبا قيام فرمايا، پھر ركوع كيا اور لمبا ركوع فرمايا پھر سر اٹھايا اور پھر سجدہ كيا اور سجدے كو لمبا كيا پھر سر اٹھايا پھر سجدہ كيا اور سجدہ لمبا كيا پھر نماز سے سلام پھيرا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 712 ).
اور حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ايك رات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ نماز ادا كى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سورۃ البقرۃ شروع كر دى ميں نے دل ميں كہا كہ سو آيات كے بعد ركوع كرينگے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم پڑھتے چلے گئے، تو ميں نے كہا: اسے ايك ركعت ميں ختم كرينگے، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پڑھتے چلے گئے، تو ميں نے كہا: اسے ختم كر كے ركوع كرينگے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سورۃ النساء شروع كر دى اور بھى ختم كر ديا، پھر سورۃ آل عمران شروع كى اور اسے آہستگى كے ساتھ پڑھتے رہے، جب بھى كسى تسبيح والى آيت سے گزرتے تو تسبيح بيان كرتے، اور جب كسى سوال والى آيت سے گزرتے تو وہاں سوال كرتے، اور جب كسى پناہ والى آيت سے گزرتے تو پناہ طلب كرتے، پھر ركوع كيا اور سبحان ربى العظيم كہنا شروع ہوئے تو ان كا ركوع قيام جتنا ہى تھا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ كہا اور پھر لمبا قيام كيا تقريبا ركوع جتنا، پھر سجدہ كيا اور سبحان ربى الاعلى كہا اور ان كا سجدہ تقريبا قيام جتنا تھا"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 772 ).
اور سنت يہ ہے كہ سجدہ ميں اعتدال برتا جائے، جيسا كہ انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" سجدہ كرنے ميں اعتدال سے كام لو، اور تم ميں سے كوئى ايك اس طرح اپنے بازو نہ بچھائے جس طرح كتا بچھاتا ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 788 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 493 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يعنى: سجدہ معتدل كرو، نہ تو اتنے زمين كے ساتھ لگ جاؤ كہ پيٹ رانوں كے ساتھ لگ جائے، اور ران پنڈلى كے ساتھ، اور نہ ہى اتنے پھيل جاؤ جيسا كہ بعض لوگ كرتے ہيں كہ جب سجدہ كرتے ہے تو تقريبا ليٹ ہى جاتے ہيں، بلاشك يہ بدعت ہے نہ كہ سنت، ہمارے علم كے مطابق سجدہ ميں پشت كو پھيلانا اور لمبا كرنا نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہى صحابہ كرام سے، بلكہ ركوع كى حالت ميں پشت كو پھيلايا جائے گا، ليكن سجدہ كى حالت ميں پيٹ اٹھا ہوا ہو گا نہ كہ پھيلا ہوا.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 168 ).
چنانچہ جب نمازى وہ كام كرے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے، اور وہ مٹى يا كسى كھردرى چيز پر سجدہ كرتا ہو تو اس كى پيشانى پر علامت پيدا ہو سكتى ہے، اور يہ چيز نفس ميں فخر اور تكبر پيدا كر سكتى ہے، جيسا كہ سوال ميں ہے، ليكن جس كا دل ايمان پر مطمئن ہو اور وہ وہى كرنا چاہتا ہو جو اللہ تعالى كے پاس ہے، تو اسے لوگوں كى باتيں كوئى نقصان نہ دينگى، ليكن اگر كوئى شخص عمدا ايسا كرتا ہے حتى كہ اس كى پيشانى ميں سجدہ كى علامت جيسى چيز پيدا ہو جائے تو يہ دكھلاوا اور كذب سے ہے، اسے دردناك عذاب كى ہلاكت ہے.
اور رہا مسئلہ مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كے متعلق:
آپ انہيں ديكھيں گے كہ وہ سجدے اور ركوع كر رہے ہيں، وہ اللہ تعالى كا فضل اور اس كى رضامندى كى جستجو ميں ہيں، اس كا نشان ان كے چہروں پر سجدوں كے اثر سے ہے الفتح ( 29 ).
اس آيت كى تفسير ميں راجح يہ ہے كہ: اس كا نشان ان كے چہروں ميں سجدوں كے اثر سے ہے. اس سے مراد اطاعت و فرمانبردارى اور عبادت كا نور ہے، اور يہ كوئى ضرورى نہيں كہ جلد كى سختى كى بنا پر يہ علامت ان كے چہرے ميں سجدہ والى جگہ ميں ہو.
ابن كثير رحمہ اللہ تعالى اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:
اور اللہ جل جلالہ كا فرمان:
اس كا نشان ان كے چہروں ميں سجدوں كے اثر سے ہے .
على بن ابى طلحہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ ان كے چہروں ميں اس كا نشان، يعنى بہتر ہيئت اور حالت ہے، اور مجاہد رحمہ اللہ اور كئى ايك نے كہا ہے كہ: يعنى خشوع اور تواضع مراد ہے.
اور ابن ابى حاتم بيان كرتے ہيں كہ مجھے ميرے والد نے اور انہيں على بن محمد الطنافسى نے اور انہيں حسين الجعفى نے زائدہ سے اور انہوں نے منصور سے اور انہوں نے مجاہد رحمہم اللہ سے بيان كيا كہ:
اس كا نشان ان كے چہروں ميں سجدوں كے اثر سے ہے. مجاہد نے كہا كہ اس سے مراد خشوع ہے، ميں نے كہا ميں تو سمجھتا تھا كہ يہ اثر اور نشانى صرف چہرے ميں ہوتى ہے، تو فرمانے لگے:
ہو سكتا ہے يہ تو اس كى آنكھوں كے درميان بھى ہو جس كا دل فرعون سے بھى زيادہ سخت ہو.
اور سدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: نماز ان كے چہروں ميں حسن پيدا كر ديتى ہے.
اور بعض سلف رحمہ اللہ كہتے ہيں: جس كى رات كى نماز زيادہ ہو اس كا چہرہ دن كے وقت حسين ہوتا ہے.
اور بعض كا كہنا ہے: نيكى كا دل ميں نور اور چہرے پر روشنى اور رزق ميں كشادگى اور لوگوں كے دلوں ميں محبت ہے. انتہى
شاہد يہ ہے كہ پيشانى پر جلد كى سختى وغيرہ اور رنگ كى تبديلى كى شكل ميں اس علامت كى موجودگى اس شخص كے اخلاص اور صحيح ہونے كى كوئى دليل نہيں، جيسا كہ اس چيز كا نہ پايا جانا اس بات كى دليل نہيں كہ وہ شخص اچھا اور نيك و صالح نہيں، اور وہ نماز ميں سستى اور كاہل ہے بلكہ اكثر طور پر يہ تو جلد كى حساسيت اور طبيعت پر منحصر ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
كيا سجدہ كى بنا پر پيشانى پر پيدا ہونے والى نشانى كے بارہ وارد ہے كہ يہ صالحين اور نيك لوگوں كى نشانى ہے ؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
يہ نيك اور صالح لوگوں كى نشانى ميں سے نہيں، ليكن وہ نشانى چہرے ميں نور اور شرح صدر اور حسن اخلاق وغيرہ كى شكل ميں ہوتى ہے.
ليكن سجدہ كى بنا پر چہرے ميں پيدا ہونے والى علامت تو بعض ايسے لوگوں كے چہرے ميں بھى پيدا ہو جاتى ہے جن كى جلد نرم اور حساس ہوتى جو صرف فرضى نماز ہى ادا كرتے ہيں، اور بعض اوقات بہت زيادہ اور لمبى نماز ادا كرنے والے كے چہرے پر بھى نہيں پيدا ہوتى.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 484 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ:
ميرے بھائى اگر آپ اللہ تعالى كے ليے مخلص ہيں، اور نماز ميں آپ اللہ تعالى كى خوشنودى اور رضا چاہتے ہيں تو لوگوں كى باتيں آپ كو كوئى نقصان نہيں دينگى، بلكہ بعض اوقات ان كا آپ كى تعريف كرنا دنيا ميں بشرى جلد بازى ميں سے ہو گا، لہذا آپ سنت پر عمل كريں، اور اپنے سجدہ كرنے كو ممكن بنائيں، اور اس كے بعد آپ اس كى پرواہ نہ كريں كہ لوگ آپ كى مدح ثنائى كرتے ہيں يا پھر مذمت.
ہم اللہ تعالى سے اخلاص اور شرف قبوليت كى دعا كرتے ہيں.
واللہ اعلم .