سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

شادى كے ليے كريڈٹ كارڈوں كا استعمال

6847

تاریخ اشاعت : 21-01-2014

مشاہدات : 4183

سوال

آئندہ ماہ ميرى شادى ہے، اور ميرے پاس اتنى رقم نہيں اور نہ ہى كوئى ايسا شخص ہے جو مجھے قرض دے، تو كيا ميں كريڈٹ كارڈ استعمال كرسكتا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شريعت اسلاميہ ميں سود ان امور ميں سے ہے جو قطعى طور پر حرام ہيں.

1 - فرمان بارى تعالى ہے:

اور اللہ تعالى نے خريد و فروخت كو حلال كيا اور سود حرام كيا ہے، لھذا جس كے پاس اللہ تعالى كى جانب سے نصيحت آگئى اور وہ اس سے باز آگيا تو اس كے ليے وہ جو گزرا اور اس كا معاملہ اللہ تعالى كے سپرد ہے اور جو پھر دوبارہ ( حرام كام كى طرف ) لوٹا وہ جہنمى ہے، ايسے لوگ ہميشہ ہى جہنم ميں رہيں گے البقرۃ ( 275 ).

2 - اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:

اے ايمان والو! اللہ تعالى سے ڈرو اور جو سود باقى رہ گيا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ايمان والے ہو البقرۃ ( 278 ).

3 - عون بن ابى جحيفہ رحمہ اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ ميں نے اپنے باپ كو ديكھا كہ انہوں نے حجام كو خريدا اور اس كے سنگى لگانے والے آلات كو توڑنے كا حكم ديا تو وہ توڑ ديے گئے، تو ميں نے ان سے اس كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے كہا:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خون، اور كتے، قيمت اور لونڈى كى كمائى سے منع فرمايا، اور گدوانے اور گودنے والى، اور سود كھانے اور كھلانے والے اور مصور پر لعنت فرمائى" صحيح بخاري حديث نمبر ( 2123 ).

اور عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود خور اور سود كھلانے والے پر لعنت فرمائى" صحيح مسلم حديث نمبر ( 1597 ).

4 - ابو ہريرہ رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تباہ كردينے والى سات اشياء سے اجتناب كرو، صحابہ كرام نے عرض كي اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ كونسى ہيں؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى كے ساتھ شرك كرنا، اور جادو، اور جس جان كو اللہ تعالى نے حرام كيا ہے اسے ناحق قتل كرنا، اور سود كھانا، اور يتيم كا مال ہڑپ كرجانا، اور لڑائى كے دن پيٹھ پھير كربھاگنا، اور پاكباز مومن غافل عورتوں پر بہتان لگانا" صحيح بخارى حديث نمبر ( 2615 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 89 ).

5 - سمرہ بن جندب رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں نے رات دو آدميوں كو ديكھا وہ ميرے پاس آئے اور مجھے ارض مقدس كى جانب لے گئے، ہم وہاں سے چلے حتى كہ ايك خون كى نہر پر آئے اس ميں ايك شخص كھڑا تھا اور نہر كے درميان ايك شخص تھا جس كے سامنے پتھر ركھے تھے،وہ شخص جو نہرميں تھا آيا اور جب اس نے نہر سے نكلنا چاہا تو باہر كھڑے شخص نے اس كے منہ پر پتھر دے مارے اور اسے واپس وہيں پلٹا ديا جہاں وہ تھا، اور جب بھى وہ نكلنے كے ليے كنارے پر آتا دوسرا شخص اس كے منہ پر پتھر مار كر واپس اس كى جگہ پر بھيج ديتا، تو ميں نے كہا يہ كيا ہے؟ تو اس نے جواب ديا كہ جو آپ نے نہر ميں ديكھا تھا وہ سود خور تھا" صحيح بخارى حديث نمبر ( 1979 ).

6 - اور سود كى حرمت پر اجماع كا انعقاد ہے، اور كريڈٹ كارڈ سود پر مشتمل ہے، تصفيل كے ليے سوال نمبر ( 11179 ) اور ( 5540 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

اس ليے ہم سائل محترم كے ليے اس وصيت سے بہتر اور اچھى كوئي وصيت نہيں پاتے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمائى ہے، كہ نفس كى تھذيب تك روزہ ركھا جائے اور اسے اطاعت وفرمانبردارى كى عادت ڈالى جائے، اور شيطان كے ليے اس كے راستے تنگ كر ديے جائيں.

ابن مسعود رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں فرمايا:

" اے نوجوانوں كى جماعت تم ميں سے جو كوئى بھى شادى كى استطاعت ركھے وہ شادى كرے، اور جو استطاعت نہ ركھے اسے روزے ركھنے چاہيں كيونكہ يہ اس كے ڈھال ہے" صحيح بخاري حديث نمبر ( 4778 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1400 ).

الباءۃ كا معنى ہے كہ: شادى كے اخراجات، اور وجاء كا معنى برائى اور گناہ ميں پڑنے سے بچاؤ ہے.

آپ سے گزارش ہے كہ مندرجہ ذيل سوال نمبروں كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

( 590 ) اور ( 665 ) اور ( 3402 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب