الحمد للہ.
مرد كے ليے چاندى كى انگوٹھى بنوا كر پہننے ميں كوئى حرج نہيں، اور نہ ہى اس پر لفظ جلالہ وغيرہ كنندہ كروانے ميں كوئى حرج ہے.
بخارى اور مسلم نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چاندى كى انگوٹھى بنوائى اور اس پر محمد رسول اللہ كنندہ كروايا، اور فرمايا:
" ميں نے چاندى كى انگوٹھى بنوائى ہے، اور اس ميں محمد رسول اللہ نقش كروايا ہے، تو كوئى اور اس نقش جيسا نقش كنندہ نہ كروائے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5877 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2092 ).
يہ حديث اس بات كى دليل ہے كہ انگوٹھى ميں لفظ جلالہ كنندہ كروانا جائز ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وہ نقش كنندہ كروانے سے منع اس ليے فرمايا تھا كہ اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام اور آپ كى صفت تھى، اور يہ اس ليے بنوائى گئى تھى تا كہ بطور مہر استعمال كى جا سكے، اور يہ ايك علامت اور نشانى بن جائے جس سے دوسروں سے تميز ہو، تو اگر كسى اور كے ليے وہ نقش اور الفاظ كنندہ كروانے جائز ہوتے تو پھر مقصد ہى فوت ہو جاتا " حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى. ماخوذ از: فتح البارى.
بہت سارے سلف رحمہ اللہ سے منقول ہے كہ انہوں نے اپنى انگوٹھيوں پر ايسى عبارتك نندہ كروائى جس ميں لفظ جلالہ بھى تھا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بعض كا ذكر فتح البارى ميں كرتے ہوئے كہا ہے:
" ابن ابى شيبہ نے " المصنف ابن ابى شيبہ " ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے نقل كيا ہے كہ انہوں نے اپنى انگوٹھى ميں عبد اللہ بن عمر كنندہ كروايا تھا.
اور ابن ابى شيبہ نے حذيفہ اور ابو عبيدہ سے روايت كيا ہے كہ ان دونوں نے اپنى انگوٹھيوں پر الحمد للہ كےالفاظ كنندہ كروائے تھے.
اور على رضى اللہ تعالى عنہ نے " اللہ الملك " كے الفاظ كنندہ كروائے تھے.
اور ابراہيم النخعى رحمہ اللہ نے " باللہ " كے الفاظ كنندہ كروائے تھے.
اور مسروق رحمہ اللہ نے " بسم اللہ " كے الفاظ كنندہ كروائے تھے.
اور ابو جعفر الباقر نے " العزۃ للہ " كے الفاظ كنندہ كروائے.
اور حسن اور حسين رضى اللہ عنہما سے مروى ہے كہ: انگوٹھى پر اللہ كا نام كنندہ كروانےميں كوئى حرج نہيں.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جمہور كا قول يہى ہے.
اور ابن سيرين اور بعض اہل علم سے اس كى كراہت منقول ہے. انتہى.
ابن ابى شيبہ نے صحيح سند كے ساتھ ابن سيرين رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے كہ:
" وہ انگوٹھى ميں " حسبى اللہ " وغيرہ الفاظ كنندہ كروانے ميں كوئى حرج نہيں سمجھتے تھے.
تو يہ اس بات كى دليل ہے كہ كراہت والا قول ان سے ثابت نہيں ہے.
اور اس ميں جمع كرنا بھى ممكن ہے كہ: كراہت اس وقت ہے جب اسے جنبى اور حائضہ پہن كر ركھينگے، اور اس ہاتھ ميں پہننے كا خدشہ ہو جس سےاستنجاء كيا جاتا ہے.
اور جواز اس طرح كہ اس سے ايسا ممكن نہ ہو، تو اس كى كراہت اس بنا پر ہو گى. واللہ تعالى اعلم. انتہى.
واللہ اعلم .