الحمد للہ.
امت محمدیہ امت مقتصدہ اورمتوسط امت ہے تواس لحاظ سے جوبھی امت محمدیہ کی طرف منسوب ہے اسے بھی اپنی پوری زندگی میں اسی طرح توسط اورمیانہ روی اختیارکرنی چاہیے ۔
جس وقت ہم یہ سنتے ہیں کہ کچھ مسلمان اپنے اوقات اہل عیال سے دورگزارتے ہیں ، چاہے وہ دعوتی کاموں یا پھرکسی سفرکی بنا پراوریاپھر کسی مباح اورجائزامورمیں گزاریں ، اوراس کے برعکس ہم کچھ لوگوں کودیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اہل عیال سے ہی چمٹے ہوۓ ہیں اوراپنے وقت میں سے کچھ بھی دعوتی کاموں میں صرف نہیں کرتے ۔
توجس طرح ایک گھرانے کے سربراہ پراہل عیال کے حقوق ہیں کہ ان میں وہ افراط سے کام نہ لے ، تواسی طرح گھرکے علاوہ دوسرے مسلمانوں اورغیر مسلمانوں کے بھی اس کے ذمہ کچھ حقوق ہیں جن میں ضروری ہے کہ تفریط سے کام نہ لیا جاۓ ۔
حسن رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہيں کہ عبیداللہ بن زیاد رحمہ اللہ نے معقل بن یساررضی اللہ تعالی عنہ کی مرض الموت میں تیمارداری کی تومعقل رضي اللہ تعالی کہنے لگے میں تمہیں وہ حدیث بیان کرتا ہوجومیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ۔
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا :
( اللہ تعالی نے جس شخص کے بھی ماتحت کچھ لوگ کردیے تووہ انہیں نصیحت نہیں کرتا تووہ جنت کی خوشبو بھی نہیں حاصل کرسکتا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6731 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 142 ) ۔
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تم میں سے ہرایک راعی ( سربراہ ) ہے اورہرایک سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا ، امیرراعی ہے وہ اپنے ماتحتوں کے بارہ میں جواب دہ ہے ، اورآدمی آپنے گھر والوں پرسربراہ ہے وہ ان کے متعلق جواب دہ ہوگا ، عورت خاوند کے گھرپرراعیہ ہے اسے اس کے بارہ میں سوال ہوگا ، اور غلام اپنے مالک کے مال کا راعی ہے اسے اس کے بارہ میں سوال ہوگا ، خبردار! تم میں سے ہرایک راعی اوراورہر ایک جواب دہ ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4892 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1629 ) ۔
اوربہت ساری ایسی بیویاں ہیں جو یہ چاہتی ہيں کہ ان کا خاوند ان کے پاس سے کہيں بھی نہ جاۓ چاہے وہ نماز کےلے ہی ہو تودعوت الی اللہ کے لیے کیسے ؟
زمانہ قدیم میں کسی عورت نے کہا تھا : میرے لیے تین سوکنوں کا ہونا ( یعنی کہ میرے خاوند کی تین اوربیویاں ہوں ) خاوند کی کتابوں کی لائبریری سے آسان ہے ، اس لیے کہ اس کا خاوند لکھنے پڑھنے اورعلم میں شغف رکھتا تھا ۔
تواسی لیے بیوی کی ہر خواہش نہیں مانی جاسکتی بلکہ اس کی خواہش اورچاہت کواللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت پر پرکھا جاۓ گا ۔
نبی صل اللہ علیہ وسلم نے بعض عبادات میں حکم دیا ہے کہ اس میں حدشرعی کوتجاوزنہ کیا جاۓ جس کے سبب سے دوسرے کے حقوق ضائع ہونے کا خدشہ ہو ، اوران میں سب سے پہلے گھروالوں کے حقوق ہیں ۔
اس سلسلےمیں کچھ احادیث کا ذکرکیا جاتا ہے :
عون ابی جحیفہ اپنے والدسے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی اورابودرداء رضي اللہ تعالی عنہما کے درمیان مؤاخات قائم کی توسلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ نے ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ کی زیارت کے لیے گۓتوام درداء رضي اللہ تعالی عنہانے کام والے میلے کچیلے کپڑے زیب تن رکھے تھے ( یہ واقعہ پردہ کے نزول سے قبل کا ہے ) سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ ام درداء رضي اللہ تعالی عنہا کوکہنے لگے اپنی حالت کیا بنا رکھی ہے ؟
تووہ جواب میں کہنے لگيں کہ آپ کے بھائ ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ کودنیا کی ضرورت ہی نہیں ، توابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ آۓ اورکھانا پیش کیا توسلمان فارسی رضي اللہ تعلی عنہ نے انہیں کہا کہ آپ بھی کھائيں ابودرداء رضي اللہ تعالی نے کہا میرا روزہ ہے ۔
سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے میں بھی اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک آپ نہیں کھائيں گے ، توان دونوں نے کھایا اورجب رات ہوئ تو ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ قیام کرنے لگے تو سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ نے کہا آّپ سوجائيں تووہ سو گۓ ۔
کچھ دیربعد پھر اٹھ کرقیام کرنے لگے توسلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا سوجائيں اورجب رات کا آخری پہر ہوا سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ نے کہا اب اٹھواورقیام کرو توان دونوں نے قیام کیا ۔
سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ کوکہنے لگے آپ پرآپ کے رب بھی حق ہے اوراسی طرح آپ کی جان و جسم کا بھی آپ پرحق ہے اور آپ کی بیوی بچوں کا بھی حق ہے اس طرح ہر حقدارکو اس کا حق ادا کرو، توابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آۓ اوریہ سب کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبتایا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سلمان فارسی نے سچ کہا ہے ۔ صحیح بخاری حديث نمبر ( 1867 ) ۔
اس حدیث میں لفظ مبتذلۃ کا معنی میلی کچیلی حالت اورلباس والا ہے ۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا :
کیا مجھے یہ نہیں بتایا گيا کہ تودن کوروزہ رکھتا اوررات کوقیام کرتا ہے ؟ کیوں نہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے یہ نہ کیا کرو بلکہ روزہ رکھوبھی اورترک بھی کرو ، قیام بھی کیا کرو اورسویابھی کرو ۔
اس لیے کہ تیرے جسم کا بھی تجھ پرحق ہے اورتیری آنکھوں کا بھی تجھ پرحق ہے اورتیری بیوی کا بھی تجھ پرحق ہے ، اورتیرے مہمان کا بھی تجھ پرحق ہے آپ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہرمہینہ تین روزے رکھا لیا کرو ، اس لیے کہ ہر نیکی میں دس نیکیوں کا بدلہ ملتا ہے ، تواس طرح آپ کے یہ روزے مکمل سال کے روزے ہوں گے ۔
میں نے تشدد کیا تومجھ پربھی سختی کردی گئ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوکہا میں طاقت رکھتا ہوں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا کرو اللہ کے نبی داود علیہ السلام کی طرح روزے رکھا لیا کرو اوراس سے زيادہ نہيں ۔
میں نے پوچھا کہ داوود علیہ السلام کے روزے کس طرح کے تھے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نصف زمانہ ( یعنی ایک دن روزہ اورایک دن افطار) توعبداللہ رضي اللہ تعالی عنہ جب بوڑھے ہوگۓ توکہا کرتے تھے کہ کاش میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئ رخصت پر عمل کرلیتا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1874 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1159 ) ۔
توآپ ان احادیث میں دیکھتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاسے جوکہ اپنے اہل عیال کے حقوق میں افراط سے کام لے رہا تھا کہ وہ قیام اور روزہ رکھنے اورقرآت قرآن میں کثرت سے نہیں بلکہ اعتدال سے کام لے ، اور یہ اسی لیے ہے کہ دوسرے حقوق والوں کے حق کا خیال رکھا جاۓ اوران میں اہل عیال بھی شامل ہیں ۔
اورجوبھی اپنے وقت کومرتب کرکے ہرایک حقدارکو اس کا حق دیتا ہے تواس کے بعد اس کے لیے کسی کی رضامندی اورناراضگی کوئ اہمیت نہیں رکھتی ، توآّپ دعوتی امورکو اپنی زندگی اوروقت پرمکمل طورپرنہ ٹھونسیں اورنہ ہی اپنی بیوی کے کہنے پردعوتی کام کلی طورپر ترک کردیں ۔
ان شاءاللہ اس میں چندایک معاون امور ہیں جن کا ذکر کرنا مناسب لگتا ہے ، یہ کہ آّپ اپنی بیوی کوبھی دعوتی امورمیں شامل کرنے کی کوشش کریں اوراسے کوئ کیسٹ سننے اوراس کا خلاصہ کرنے کے لیے دیں ۔
یا پھر اسے پڑھنے کے لیے پمفلٹ اوراس کے فوائد لکھنے کے لیے دیں ، یا اسے علمی حلقوں اوردروس میں جانے کا کہیں ، اوراسلامی مراکزميں عورتوں کے پروگراموں میں شریک کریں ، یا اسی طرح عورتوں کی کسی علمی مجلس جوکہ شادی وغیرہ کی مجالس میں تا کہ اسے یہ محسوس ہوکہ وہ اس کام میں آپ کے ساتھ ہے ، تا کہ وہ خاوند کے غیرموجودگی سے اکتاہٹ محسوس نہ کرے
ایک اور چيزیہ ہے کہ آپ اسے یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ اگروہ اس پرصبر کرے اور علم و دعوت کے لیے مناسب فضا اور ماحول تیار کرے تووہ بھی اجرو ثواب میں اس کے ساتھ برابر کی شریک ہے ۔
اوریہ کہ جب صحابی جہاد کے لیے جاتے توان کی بیویاں صحابیات رضي اللہ تعالی عنہن اپنے گھروں اوربچوں کی حفاظت کیا کرتی تھی اورجب وہ گھر واپس تشریف لاتے تواپنے خاوندکے آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کیا کرتی تھیں ۔
اوراسے یہ بھی سمجھانے کی کوشش کریں کہ جب وہ گھر سے باہر طلب علم یا پھر دعوت وجہا د کے لیے جاۓ تواپنے خاوند کے گھر کی حفاظت کرے اورگھرمیں آنے والے طالب علموں اورمہمانوں کی مہمان نوازی کرے تواس کے لیے اس میں بہت زيادہ اجرو ثواب ہے ۔
اس لیے کہ ایک تیرکی بنا پراللہ تعالی صرف اکیلے تیراندازکو ہی جنت میں نہيں داخل کرے گا بلکہ اس کی وجہ سے تین اشخاص کو جنت میں لے جاۓ گا جن میں ایک توبنانے والا کاریگرجس نے اسے اچھی نیت سے بنایا اور دوسرا تیراندازکوتیر پکڑانے والا اور تیسرا خود تیرانداز ۔
بیوی کویہ موضوع سمجھانے اوراجرو ثواب کا ادراک کرانے سے خاوند کے غائب ہونے اوراس کے پاس نہ ہونے کے معاملہ میں بہت ساری تخفیف کا باعث ہوگا ۔
اورآخرمیں ہم اس عظیم عورت کے عظیم قصہ سے اس کوختم کرتے ہيں جن کاخاونددعوت و جھاد اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلامی مملکت کے امورمیں معاونت کرتا تھا اس قصہ میں ہم دیکھیں گے کہ وہ کیا کرتی اوران کا موقف کیا تھا ۔
یہ عورت عظیم وجلیل صحابی اورخلیفہ اول ابوبکرالصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی صاحبزادی اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا ہیں ۔
آئيں اب ہم وہ قصہ بھی انہیں کی زبانی ہی سنیں :
اسماء بنت ابی بکررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتی ہیں کہ زبیررضي اللہ تعالی عنہ نے مجھ سےشادی کی توان کے پاس اس دنیامیں کوئ کسی قسم کا مال ودولت نہ تھا نہ توکوئ غلام اورنہ ہی کوئ چيز صرف ان ایک گھوڑا اورایک پانی لانے کے لیے اونٹ تھا ۔
میں ان کے گھوڑے کوچارہ ڈالتی اورپانی پلاتی اور اس کا ڈول وغیرہ سیتی تھی ، آٹاگوندتی لیکن اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی ، میری انصاری سہیلیاں جوکہ سچی اوراچھی عورتیں تھیں آ کرروٹیاں پکا دیتیں ، میں زبیررضي اللہ تعالی عنہ کی اس زمین سے جوانہيں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی سےاپنےسر پرگٹھلیاں اٹھا کرلایا کرتی تھی جوکہ ہمارے گھرسے دوثلث فرسخ کے فاصلے پرتھی ۔
میں ایک دن آرہی تھی اورمیرے سرپرگٹھلیاں تھیں توراستے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ انصاری صحابیوں کے ساتھ آتےہوۓ ملے تومجھے بلایا پھرکہنے لگے اخ اخ ( یہ کلمہ اونٹ کوبٹھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے ) تا کہ مجھے اپنے پیچھے بٹھاسکیں ، لیکن میں شرما گئى کہ میں مردوں کے ساتھ چلوں مجھے زبیر رضي اللہ تعالی عنہ اوران کی غیرت یاد آگئ جو کہ بہت زياد غیرت مند تھے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جان لیا کہ میں شرما گئى ہوں توچل پڑے ۔
میں زبیر رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آئى اوران سے کہا مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ملے تومیرے سرپرگٹھلیاں تھیں اوران کے ساتھ کچھ انصاری صحابی رضي اللہ تعالی عنہم بھی تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بیٹھنے کے لیے اپنی اونٹنی بٹھائى تومجھے شرم آگئ اورمیرے ذہن میں آپ کی غیرت دوڑ گئى
زبیررضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے : اللہ تعالی کی قسم مجھ پرتیرا یہ گٹھلیاں اٹھانا تیرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ پرسوارہونے سے بھی سخت گزرتا ہے ۔
اسماء رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں حتی کہ اس کے بعدابوبکررضي اللہ تعالی عنہ نے میرے پاس ایک غلام بھیج دیا جوکہ گھوڑے کو سنبھالتا تھا اوراس غلام نے گویا کہ مبھےآزاد کردیا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4823 ) ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ مسلمانوں بیویوں اورخاوندوں کے ہر قسم کے حالات کی اصلاح فرماۓ آمین ۔
اوراللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پررحمتوں کا نزول کرے
واللہ اعلم .