جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كافروں كا مال قبول كرنا

6964

تاریخ اشاعت : 05-03-2005

مشاہدات : 5163

سوال

ميں خود مسلمان ہوں اور ميري بيوي عيسائي ہے ميں يہ پوچھنا چاہتاہوں كہ ميري بيوي كوجومال وراثت ميں ملا ہے كيا ميرے ليےاس كا استعمال جائز ہے كيونكہ مجھے وراثت ميں كوئي مال نہيں ملا ، ليكن وہ مال صرف ميري بيوي كي ملكيت ہے ؟
جب ميري بيوي - مجھ سے قبل موت كي صورت ميں - اپني ممتلكات كي وصيت ميرے ليے كردے تو كيا ميرے ليے يہ مال لينا جائزہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

1 - آپ كےليے اپني بيوي كا اسےوراثت ميں ملنےوالامال لينا جائز ہے ليكن اس ميں ايك شرط ہے كہ اس ميں وہ رضامند ہو .

اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے:

اگر وہ تمہيں اپني مرضي كےساتھ اس ميں سےكچھ دے ديں تواسے بڑي خوشي سے شوق كےساتھ كھاؤ النساء ( 4 )

امام قرطبي رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں :

اللہ تعالي كا يہ فرمان كہ : اگروہ تمہيں اپني مرضي سے كچھ دےديں ، يہ خطاب خاوندوں كوہے ، اوراپنےعموم كےاعتبار سے اس بات كي دليل ہے كہ عورت چاہے وہ كنواري ہو يا شادي شدہ كا اپنےخاوند كواپنا مہر ہبہ كرنا جائزہے جمہور علماء كرام كا قول يہي ہے ...... اور علماء كرام كا اس پر اتفاق ہے كہ عورت اپنے معاملے كي خود مالك ہے اگروہ اپنا مہر خاوند كو ہبہ كردے تويہ نافذ ہوگا اور اس ميں كوئي رجوع نہيں . ديكھيں تفسير قرطبي ( 5 / 24-25 )

اور عموما كافروں كا مال جب خوشي ورضامندي سے مسلمان كےليے خرچ كيا جائے تواسےلينے ميں كوئي حرج نہيں كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے يہوديوں كےپاس كھايا ہے . صحيح بخاري ( 2424 ) صحيح مسلم ( 4060 ) .

اور ايلہ ( ساحل سمندر كےساتھ ايك ملك ) كےبادشاہ نے جوكہ كافر تھا رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كوايك خچر اورچادركا ہديہ ديا تھا. صحيح بخاري ( 1411 ) صحيح مسلم ( 1392 )

اور نجاشي نے كفر كي حالت ميں ام حبيبہ رضي اللہ تعالي عنہا كا مہر ادا كيا تھا .

ام حبيبہ رضي اللہ تعالي عنہا بيان كرتي ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ نےان سے شادي كي تووہ خود حبشہ ميں تھيں ، انہيں نجاشي نے بياہا تھا اور چار ہزار مہر ادا كيا اور اپني جانب سے تيار كيا اور انہيں شرحبيل بن حسنہ كےساتھ روانہ كيا ، اور رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے كوئي چيز نہيں بھيجي تھي اور رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كي بيويوں كا مہر ايك سو درھم تھا . سنن نسائي ( 3350 ) يہ الفاظ نسائي كے ہيں سنن ابوداود ( 2086 ) مستدرك حاكم ( 2 / 181 ) امام حاكم نے اسے صحيح كہا اور امام ذھبي نے بھي اس تصحيح كوصحيح كہاہے .

اس كےعلاوہ اور بھي بہت دلائل ہيں .

اس كا - اپنے دين پر رہتے ہوئے موت سے قبل – اپني مملوكہ اشياء كا وصيت آپ كےليے وصيت كرنا بھي آپ كےليے يہ ممتلكات حلال كردےگا ، تووصيت وراثت كےعلاوہ ہے ، لھذا اگر وہ فوت ہوجائے اوروصيت نہ كرے تو آپ اس كي كسي چيز كےوارث نہيں بن سكتے .

رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے : مسلمان كافر كا اور كافر مسلمان كا وارث نہيں بن سكتا . صحيح بخاري ( 6383 ) صحيح مسلم ( 1614 )

امام ابن عبدالبررحمہ اللہ تعالي كہتےہيں :

حفاظ اورثقات آئمہ كرام كي منقولہ روايات سے ثابت ہے كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا : مسلمان كافر كا وارث نہيں بنےگا، لھذا جس نےبھي اس كي مخالفت كي وہ اس كي بات تسليم نہيں ہوگي دلائل اس كےخلاف ہيں ، اورسب صحابہ كرام ، تابعين عظام اور فقھاء كرام مثلا امام مالك ، الليث ، امام ثوري ، اور امام اوزاعي ، اور امام ابوحنيفہ امام شافعي اور اہل حديث ميں سے وہ سب جنہوں نے فقہ ميں بات كي ہے ان كا يہي كہنا ہے كہ مسلمان كافر كا وارث نہيں ، اور اسي طرح اس حديث كي اتباع ميں اور اس پر عمل كرتے ہوئےكافر بھي مسلمان كا وارث نہيں ، اللہ تعالي ہي توفيق بخشنے والا ہے .

ديكھيں : التمھيد : ( 9 / 164 ) .

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب