الحمد للہ.
اول:
فرمانِ باری تعالی :
لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
ترجمہ: یقیناً ہم نے انسان کو بہترین بناوٹ میں پیدا کیا ہے۔[التین: 4]
کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو بہترین صورت ، شکل ، معتدل اعضا، کامل اور خوبصورت جسم کی شکل میں پیدا کیا ہے۔
اس آیت کا یہ مفہوم امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنے تفسیر: (4/680) میں بیان کیا ہے۔
اسی طرح علامہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بہترین بناوٹ کا مطلب یہ ہے کہ: انسان کو اللہ تعالی نے معتدل جسم والا اور بہترین جوانی والا بنایا ہے۔ اکثر مفسرین کے مطابق اس آیت کا یہی مفہوم ہے۔ یعنی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو تخلیق کی تمام ممکنہ ساختوں میں سے بہترین ساخت اور بناوٹ پر بنایا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ہر چیز کے منہ کو زمین کی جانب جھکا ہوا رکھا ہے، لیکن انسان کے سر کو زمین کی طرف نہیں جھکنے دیا، اسے زبان، ہاتھ اور پکڑنے کے انگلیاں دی ہیں۔ ابو بکر بن طاہر کہتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو عقل سے مزین، حکم کی تعمیل کرنے والا، خیر و شر میں تمیز رکھنے والا، لمبی قامت والا اور کھانے والی چیزوں کو ہاتھ سے پکڑ کر کھانے والا بنایا ہے۔" ختم شد
تفسیر قرطبی: (20/105)
اس سے یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ دانتوں کا علاج کروانا منع ہے، یا ٹیڑھے دانتوں کو سیدھا کروانا ممنوع ہے اسی طرح کسی بھی طرح کا علاج اس آیت کی رو سے منع نہیں ہے، البتہ یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ کام خود ساختہ خوبصورتی کے لیے نہیں ہونا چاہیے؛ کیونکہ خوبصورتی کے لیے کی جانے والی سرجری وغیرہ کے بارے میں اصول یہ ہے کہ جو سرجری کسی عیب یا بد صورتی کو ختم کرنے کے لیے ہو تو وہ جائز ہے، لیکن اگر کوئی خود ساختہ خوبصورتی میں اضافے کے لیے کروائے تو یہ جائز نہیں ہے۔
مزید کے لیے آپ "مجموع فتاوی ابن عثیمین" ج 17 سوال نمبر: 4 کا مطالعہ کریں۔
آپ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ:
دانتوں کو سیدھا کروانے کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"دانتوں کو سیدھا کروانے کا معاملہ دو قسم کا ہے:
پہلی قسم: دانتوں کو سیدھا کروانے کا مقصد صرف خود ساختہ خوبصورتی میں اضافہ ہو تو یہ حرام ہے، حلال نہیں ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسی خواتین پر لعنت فرمائی ہے جو اپنے دانتوں میں خوبصورتی کے لیے خلا پیدا کرواتی ہیں، اور اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں۔ حالانکہ عورت سے تو خوبصورت بن کر رہنا مطلوب ہے، عورت ہی ہے جو زیور میں بن سنور کر رہتی ہے، تو ایسی صورت میں مرد کے لیے یہ کام بالاولی منع ہونا چاہیے۔
دوسری قسم: دانتوں کو کسی عیب کے خاتمے کے لیے سیدھا کروایا جا رہا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ کچھ لوگوں کے دانت باہر کی جانب آ جاتے ہیں، خصوصا ً آگے والے اوپر کے دو دانت کچھ لوگوں کے بہت زیادہ باہر آ جاتے ہیں اور دیکھنے والے کو بہت برے بھی لگتے ہیں، تو اس صورت میں دانت سیدھے کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہاں عیب ختم کیا جائے گا، نہ کہ خوبصورتی پیدا کیا جائے گی، اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان میں بھی موجود ہے کہ: (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ناک کٹے آدمی کو حکم دیا تھا کہ وہ چاندی کی ناک لگوا لے، لیکن اس میں بد بو پیدا ہو گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں سونے کا ناک لگوانے کا حکم دیا۔) کیونکہ اس میں عیب کا ازالہ تھا، خوبصورتی میں اضافہ نہیں تھا" ختم شد
"مجموع فتاوى شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ" ج 17 سوال نمبر: 6
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (21255 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
خلاصہ یہ ہوا کہ:
یہ آیت کریمہ دانتوں کے علاج اور سیدھے کروانے سے مانع نہیں ہے؛ کیونکہ دانتوں کو سیدھا کروا کر بعد میں پیدا ہونے والی بد صورتی کو زائل کرنا مقصود ہوتا ہے۔