سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

مرد كے ليے بال لمبے ركھنا اور چٹيا بنانے كا حكم

69822

تاریخ اشاعت : 10-03-2008

مشاہدات : 16807

سوال

ميرا خاوند كہتا ہے كہ ميں اس كے سر كے بالوں كى چٹيا بناؤں ميں نے اس سے اس كے متعلق شرعى حكم معلوم كيا تو اس نے مردوں كے بالوں كى چٹيا كے متعلق بعض علماء كرام كے اقوال بيان كيے تو كيا يہ صحيح ہے ؟
ميں يہ سوال اس ليے كر رہى ہوں ميں اسے نہيں مانتى، ليكن ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ آيا اس ميں كوئى دوسرى رائے بھى پائى جاتى ہے، كيونكہ ميرے ليے يہ معاملہ بہت ہى عجيب ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بال لمبے كرنا ايسى سنت نہيں كہ اس پر مسلمان شخص كو اجر و ثواب حاصل ہو؛ كيونكہ يہ عادات ميں شامل ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بال لمبے بھى ركھے، اور انہيں مونڈا بھى، اور اسے لمبے كرنے ميں كوئى اجروثواب نہيں ركھا، اور نہ ہى اسے مونڈنے ميں كوئى گناہ، ليكن صرف اتنا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بالوں كا خيال ركھنے اور انہيں سنبھالنے كا حكم ديا ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كے بال ہوں تو وہ ان كى تكريم كرے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4163 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ( 10 / 368 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" ميں حيض كى حالت ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سر كے بالوں كو كنگھى كيا كرتى تھى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 291 ).

ترجيل بالوں كو كنگھى كر كے كھولنے كو كہا جاتا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال كانوں كى لو تك پہنچ رہے ہوتے تھے، اور بعض اوقات كانوں اور گردن كے درميان، اور بعض اوقات كندھوں كے ساتھ لگ رہے ہوتے تھے، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بال لمبے ركھتے تو ان كى چار چٹيا بناتے تھے.

انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال كندھوں پر پڑ رہے ہوتے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5563 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2338 ).

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال آپ كے كانوں اور گردن كے درميان ہوا كرتے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5565 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2338 ).

اور مسلم كى ايك روايت ميں ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال كانوں كے نصف تك تھے "

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال وفرہ سے بڑے اور جمۃ سے چھوٹے تھے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1755 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4187 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

الوفرۃ: جب سر كے بال كانوں كےنچلے حصہ تك پہنچ جائيں تو انہيں وفرہ كہا جاتا ہے.

الجمۃ: جب سر كے بال كندھوں پر گرنے لگيں ت وانہيں جمہ كہا جاتا ہے.

ام ہانى رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مكہ تشريف لائے تو آپ بالوں كى چار ميڈياں ( چٹيا ) بنى ہوئى تھيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1781 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4191 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3631 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ميں اسے حسن اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے " مختصر الشمائل " ( 23 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

الغدائر: ضفائر يعنى چٹيا كو كہتے ہيں.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" حديث جس پر دلالت كرتى ہےكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال كندھوں كے قريب ہوا كرتے تھے يہ غالب حالات ميں تھے، اور بعض اوقات اس سے بھى لمبے ہو جاتے حتى كہ اس كى چٹيا بنائى جاتيں، جيسا كہ ابو داود اور ترمذى نے حسن سند كے ساتھ ام ہانى رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مكہ تشريف لائے تو آپ كے بالوں كى چار چٹيا تھيں "

اور ايك روايت ميں ضفائر كے الفاظ ہيں.

اور ابن ماجہ كى روايت ميں اربع غدائر يعنى ضفائر كے الفاظ ہيں.

اور يہ اس حالت پر محمول ہے جس ميں سفر وغيرہ كى بنا پر بالوں كا دھيان نہيں ركھا جاتا " انتہى مختصرا.

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 360 ).

يہ معاملہ اس دور ميں معروف اور مقبول تھا، اور لوگ اس سے متعارف تھے، اس ليے جب عرف مختلف ہو اور مسلمان شخص كسى ايسى جگہ ہو جہاں كے رہنے والے لوگ اس پر زيادتى نہ كريں، يا پھر وہ اس ايسا كرنے والے كو فاسق قسم كے لوگوں كے ساتھ مشابہت كرنے والا سمجھيں تو پھر يہ عمل نہيں كرنا چاہيے.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" سر كے بالوں كو لمبا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال بعض اوقات كندھوں تك لمبے ہو جاتے تھے، تو يہ اپنى اصل پر ہى ہے، اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس كے باوجود يہ عادات اور عرف كے تابع ہے، اس ليے اگر كسى معاشرے اور عرف ميں يہ عادت ہو كہ وہاں لمبے بال صرف ايك مخصوص غلط قسم كا گروہ ركھتا ہو، تو پھر اہل مروؤت كے ليے ايسا نہيں كرنا چاہيے، اس ليے كہ لوگوں كى عادات اور عرف نچلے اور گرے پڑے افراد سے آتى ہيں!

اس ليے بال لمبے ركھنے كا مسئلہ ان مباح اشياء ميں شامل ہوتا ہے جو لوگوں كى عادات اور عرف كے تابع ہے، لہذا جب لوگوں كى عادت اور عرف ميں ہو كہ ہر شخص شريف اور غير شريف افراد سب ايسا كرتے ہوں تو پھر اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر ايسا صرف گرے پڑے لوگ ہى كرتے ہوں تو پھر شرف و مقام اور مرتبہ ركھنے والے شريف افراد كو ايسا نہيں كرنا چاہيے، اور اس پر يہ اعتراض نہيں ہوتا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو كہ سب سے افضل اور اعلى مقام و مرتبہ ركھتے ہيں ان كے بال لمبے تھے، كيونكہ اس مسئلہ ميں ہمارى رائے يہ ہے كہ بال ركھنا سنت اور عبادت ميں شامل نہيں، بلكہ يہ عادات اور عرف كے تابع ہے "

فتاوى نور على الدرب.

اس ليے آپ كے خاوند كا كہنا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بالوں كى چار چٹيا تھيں صحيح ہے، ليكن اس كا يہ معنى نہيں كہ يہ ايسى سنت ہے جس پر اسے اجروثواب حاصل ہوگا، بلكہ اس ميں لوگوں كى عادات اور عرف كا خيال كيا جائيگا، اكثر علاقوں اور ملكوں ميں اب عادات اور عرف بدل چكى ہيں، جو كہ قديم دور ميں تھيں.

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہمارے دور كے لوگوں ميں صرف فوجى ہى لمبے بال ركھتے ہيں، ان كے كانوں اور گردن تك بال ہيں، اہل اصلاح اور اہل علم و عمل ايسا نہيں كرتے، حتى كہ يہ ان كى علامت بن كر رہ گئى ہے، اور كانوں تك بال ركھنا ہمارے ہاں بےوقوفوں كى علامت بن چكى ہے! اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ آپ نے فرمايا:

" جس كسى نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے ـ يا ان كے ساتھ اٹھايا جائيگا ـ "

اس ميں ايك قول يہ ہے كہ: جس نے بھى ان كے افعال ميں ان كى مشابہت كى.

اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: جس نے بھى شكل و شباہت ميں مشابہت كى.

آپ كے ليے يہى كافى ہے، تو يہ صالحين اور نيك لوگوں كى راہ پر چلنے كا اجمال ہے، چاہے وہ كسى بھى حالت ميں ہوں، اور بال ركھنا يا منڈوانا روز قيامت كچھ فائدہ نہيں دينگے، بلكہ نيت اور اعمال كے مطابق اجروثواب اور سزا دى جائيگى، اس ليے بہت سے بغير بالوں والے لوگ بہت اور اچھے ہيں، اور ہو سكتا ہے بالوں والا شخص بھى نيك و صالح ہو "

التمہيد ( 6 / 80 ).

خلاصہ يہ ہوا كہ:

اس ميں عادت اور عرف كى پيروى كرنى چاہيے، حتى كہ مسلمان شخص ہنسى و مذاق كا شكار نہ ہو جائے، اور لوگوں كى غيبت كا باعث نہ بنے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب