جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

ایک خاتون اسلام میں حقوقِ نسواں کے بارے میں پوچھتی ہے

سوال

اسلام میں عورت کے کیا حقوق ہیں؟ اگر یہ حقوق حالات کے مطابق بدلتے آئے ہیں تو اسلام کے سنہری دور (آٹھویں صدی ہجری سے بارہویں صدی ہجری تک) سے اب تک اس میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اسلام نے عورت کو بہت بلند مقام عطا کیا ہے، عورت کی بطور ماں شان بلند کرتے ہوئے یہ واجب قرار دیا ہےکہ ماں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے طریقے سے پیش آنا ہے ، اس کی اطاعت کرنی ہے، بلکہ اس  کی رضا مندی کو اللہ تعالی کی رضا مندی قرار دیاہے، اسی طرح یہ بھی بتلایا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے، یعنی مطلب یہ ہے کہ جنت کا قریب ترین راستہ  ماں کی خدمت سے ملے گا، اس کی نافرمانی کو حرام قرار دیا، بلکہ محض اف کہنے کو بھی حرام قرار دیا، نیز والدہ کے حقوق والد کے حقوق سے بھی بڑے  قرار دئیے، ایسے ہی بڑھاپے اور کمزوری کی عمر میں والدہ کا خیال رکھنے پر زور دیا، اس بارے میں متعدد قرآن و سنت کی نصوص موجود ہیں۔

مثال کے طور پر:
( وَوَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا )
ترجمہ: اور ہم نے انسان کو تاکیدی نصیحت کی ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔[الأحقاف:15 ]

اسی طرح فرمایا: ( وَقَضَى رَبُّكَ أَلا تَعْبُدُوا إِلا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاهُمَا فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلا كَرِيمًا [23] وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا )
ترجمہ: آپ کے  پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ : تم اس کے علاوہ  اور کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ بہتر  سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو  انہیں اف تک نہ کہو، نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے بات کرو تو ادب سے کرو۔ [23] اور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ : پروردگار ! ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے (محبت و شفقت) سے پالا تھا۔ [الإسراء:23، 24]

اسی طرح سنن ابن ماجہ میں ہے کہ: معاویہ بن جاہمہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: "اللہ کے رسول! میں رضائے الہی اور آخرت  کی غرض سےآپ کے ساتھ جہاد میں شرکت کرنا چاہتا ہوں " تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تیرا بھلا ہو! تمہاری والدہ زندہ ہیں؟) میں نے کہا: " جی ہاں " تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (واپس جاؤ اور ان  کی خدمت کرو)۔ اس پر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری جانب سے آیا  اور عرض کیا: "اللہ کے رسول! میں رضائے الہی اور آخرت  کی غرض سےآپ کے ساتھ جہاد میں شرکت کرنا چاہتا ہوں " تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تیرا بھلا ہو! تمہاری والدہ زندہ ہیں؟) میں نے کہا: "اللہ کے رسول ! جی ہاں زندہ ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ان کے پاس واپس جاؤ اور ان  کی خدمت کرو)۔ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے آیا اور عرض کیا: "اللہ کے رسول! میں رضائے الہی اور آخرت کی غرض سےآپ کے ساتھ جہاد میں شرکت کرنا چاہتا ہوں " تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تیرا بھلا ہو! تمہاری والدہ زندہ ہیں؟) میں نے کہا: "اللہ کے رسول! جی ہاں، زندہ ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہارا بھلا ہو! اپنی والدہ کے قدموں میں پڑے رہو وہیں پر جنت ہے)
اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ابن ماجہ میں صحیح کہا ہے، یہی حدیث سنن نسائی میں (3104) بھی ہے، سنن نسائی کے الفاظ یہ ہیں: (اپنی والدہ کی خدمت شعار بنا لو؛ کیونکہ جنت ان کے قدموں تلے ہے)

اسی طرح بخاری: (5971) اور مسلم: (2548) میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری والدہ ، سائل نے کہا پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تمہاری والدہ، سائل نے کہا پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تمہاری والدہ، سائل نے کہا ان کے بعد؟ تو آپ نے فرمایا: تمہارا والد)

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات اور احادیث  ہیں جن کے ذکر کرنے کی یہاں  گنجائش نہیں ہے۔

جب تک اولاد صاحب استطاعت و ثروت ہو تو والدہ کے اخراجات کی ذمہ داری اسلام نے اولاد پر عائد کی ہے کہ والدہ کی تمام تر ضروریات انہوں  نے پوری کرنی ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ اتنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی مسلمانوں کی جانب سے کوئی ایک ایسا واقعہ نظر نہیں آتا  جس میں عورت کو اولڈ ایج ہوم میں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا گیا ہو، یا بیٹے نے ماں کو گھر سے نکال دیا ہو، یا بیٹے ماں کے اخراجات برداشت کرنے  سے انکاری ہو گئے ہوں، یا بیٹوں کی موجودگی میں ماں کو اپنا پیٹ پالنے کیلیے کام کاج کی ضرورت محسوس ہوئی ہو۔

اسلام  نے عورت کی بطورِ بیوی بھی خوب عزت بخشی ہے، چنانچہ  خاوندوں کو بیویوں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا، بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کا حکم دیا، اور یہ بھی بتلایا کہ بیوی کے بھی خاوند کے برابر حقوق ہیں، البتہ خاوند کو بیوی پر حاکمیت حاصل ہے؛ کیونکہ خاوند  تمام تر اخراجات کا ذمہ دار اور گھر   کا سربراہ ہے، یہ بھی واضح کیا کہ مسلمانوں میں سے بہترین وہی ہے جو اپنی اہلیہ کے ساتھ اچھے انداز سے رہتا ہے، بیوی کی رضا مندی کے بغیر بیوی کی دولت ہتھیانا حرام قرار دیا، قرآن مجید میں بیویوں کے حقوق کیلیے وارد آیات میں سے کچھ یہ ہیں:
( وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ )
ترجمہ: اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے  زندگی بسر کرو [النساء:19]

اسی طرح فرمایا: ( وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ )
ترجمہ: اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے حق ہیں اچھے انداز کے ساتھ۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور اللہ تعالی بڑا غالب، خوب حکمت والا ہے [البقرة:228]

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (خواتین کے ساتھ بھلائی کی وصیت مجھ سے لے لو) بخاری: (3331) مسلم: (1468)

ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کیلیے بہتر ہو، اور میں اپنے اہل خانہ کیلیے تم سب سے زیادہ بہتر [خیال رکھنے والا]ہوں) ترمذی: (3895) ابن ماجہ: (1977) اسے البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسلام عورت کو بطوربیٹی بھی بہت مقام دیتاہے؛ چنانچہ اسلام نے بچیوں کی تعلیم و تربیت  کی خوب ترغیب دی ہے، اور بچیوں کی اچھی تربیت پر اجر عظیم مقرر کیاہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص بلوغت تک دو بچیوں کی پرورش کرے تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ایسے آئے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں ملا کر دکھائیں) مسلم:  (2631)

اسی طرح سنن ابن ماجہ : (3669) میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر بھی کرے ، انہیں کھلے دل کے ساتھ کھلائے پلائے، اور پہنائے تو وہ اس کیلیے روزِ قیامت آگ سے پردہ ہوں گی) اس حدیث کو البانی نے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسلام نے عورت کو بطور بہن، پھوپھی اور خالہ بھی عزت اور اکرام سے نوازا ہے، اسلام نے ان کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیا ہےاوراس کی  خوب ترغیب دلائی ہے، متعدد نصوص میں ان سے قطع تعلقی  کو حرام قرار دیاہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (لوگو! سلام عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو رات کے وقت نماز پڑھو تو تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے) اسے ابن ماجہ : (3251)نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ابن ماجہ میں اسے صحیح کہا ہے۔

بخاری (5388) میں گرامی قدر رسالتِ مآب سے مروی ہے کہ اللہ تعالی نے رحم (تعلق داری)سے فرمایا کہ "جس نے تجھے جوڑا اسے میں جوڑ دوں گااورجس نے تجھے توڑا اسے میں توڑ دوں گا"

بسا اوقات یہ تمام کی تمام رشتے داریاں ایک ہی عورت میں جمع ہو جاتی ہیں کہ ایک ہی عورت بیوی بھی ہو ،کسی کی  بیٹی بھی ہو، کسی کی ماں، بہن، خالہ اور پھوپھی بھی ہو تو ایسی خاتون کو یہ تمام تر خوبیاں حاصل ہو جاتی ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے عورت کی شان اور عظمت کو بڑھایا ہے، بہت سے احکامات میں عورت کو مرد کے برابر قرار دیاہے، یہی وجہ ہے کہ عورت کو بھی مرد کی طرح ایمان اور اطاعت گزاری کا حکم دیا گیا، آخرت میں اسے مرد کے برابر ثواب ملے گا، عورت کو بولنے کا حق بھی ہے، وہ نیکی کا حکم دے سکتی ہے برائی سے روک سکتی ہے، اللہ کی جانب دعوت دے سکتی ہے، عورت کو حقِ ملکیت بھی حاصل ہے، اسلام اسے خرید و فروخت کا حق بھی دیتا ہے، وراثت میں سے حصہ بھی دلاتا ہے، عورت  کو صدقہ و خیرات اور تحائف دینے کا بھی حق  ہے، کوئی بھی عورت کا مال اس کی اجازت کے بغیر لینے کا حق دار نہیں ہے، عورت کو بھی خوشحال زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، اس پر کسی قسم کی جارحیت یا زیادتی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، اس پر ظلم نہیں کیا جاسکتا، علم و عرفان کی دولت سمیٹنا بھی عورت کا حق ہے، بلکہ دینی امور کے متعلق عورت کیلیے علم حاصل کرنا واجب اور ضروری ہے۔

اگر کوئی شخص عورت کا اسلام میں مقام سمجھے اور پھر دورِ جاہلیت یا دیگر ثقافتوں میں عورت کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کو دیکھے  تو اسے ہماری مندرجہ بالا باتوں کی حقیقت  کا  علم ہو جائے گا، بلکہ ہم ٹھوس الفاظ میں یہ دعوی کرتے ہیں کہ جتنی عزت افزائی عورت کی اسلام نے کی ہے کبھی بھی عورت کو اتنی عزت  وتکریم مل سکی ہے نہ ملے گی۔

جب اسلام نے عورت کو  عزت دی ،اس موقع پر یونانی ، فارسی اور یہودی معاشروں میں عورت کی ابتری  حالت کا ہونا تودور کی بات ہے، عیسائیت کے ہاں بھی خواتین کیلیے انتہائی ناروا ا رویہ تھا۔

جیسے کہ لاہوتی عیسائی پادریوں نے  کونسل آف میکان میں ایک تحقیقی اجلاس منعقد کیا جس کا عنوان تھا: "کیا عورت محض جسم ہے یا اس جسم میں روح بھی ہے؟"!  اس اجلاس کے متفقہ اعلامیہ میں اس بات پر اکثریت کا اتفاق ہوا کہ عورت  نجات پانے والی روح سے خالی ہے، اور خواتین کی اس صفت سے صرف مریم علیہا السلام ہی مستثنی ہیں۔

اس کے بعد فرانسیسیوں نے 586ء میں خواتین کی ساخت کے متعلق ایک کانفرنس کا انعقاد کیا : کہ کیا عورت  میں روح ہے یا نہیں؟  اور اگر عورت میں روح ہے تو یہ روح حیوانی ہے یا انسانی؟ جس میں ان کا متفقہ اعلامیہ یہ تھا کہ عورت  انسان ہے! لیکن عورت کو صرف مرد کی خدمت کیلیے پیدا کیا گیا ہے۔

برطانیہ کی پارلیمنٹ نے ہنری ہشتم کے عہد میں ایک قرارداد جاری کی  جس میں عورت پر عہد جدید پڑھنے کی پابندی عائد کی گئی تھی؛ کیونکہ عورت  نجس اور پلید ہوتی ہے۔

سن 1805ء تک برطانوی قانون میں  آدمی کو اپنی بیوی فروخت کرنے کی اجازت تھی، اور اس قانون میں بیوی کی قیمت صرف چھ پیسے مقرر کی گئی تھی ۔

جبکہ دورِ حاضر میں عورت کو 18 سال کی عمر میں ہی گھر بدر کر دیا جاتا ہے کہ پیٹ پالنے کیلیے کام کرے، اور اگر لڑکی گھر میں ہی رہنا پسند کرے تو اسے اپنے والدین کو  کمرے کا کرایہ، کھانے پینے اور کپڑے دھونے تک کا معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے!

مزید کیلیے دیکھیں: "عودة الحجاب" (2/47- 56)

ان تمام تر تفصیلات کے بعد کیا خواتین کے ساتھ اتنی بد سلوکی کا اسلامی تعلیمات  سے تقابل کرنا بنتا ہے؟! کہ اسلام تو خواتین کی عزت افزائی، تکریم اور اس کے اخراجات تک اٹھانے کا حکم دیتا ہے!!

دوم:

اور جہاں تک زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ حقوقِ نسواں میں تبدیلی آنے کا تعلق ہے تو اصولی، نظریاتی اور قانونی طور پر اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن ان نظریات پر عمل اور انہیں زندگی میں عملی طور پر کس حد تک اپنایا جا رہا ہے تو اس بارے میں یہ ہے کہ اسلام کے سنہری دور  میں اسلامی تعلیمات پر پابندی سے عمل ہوتا تھا اور لوگ اپنے پروردگار کی شریعت کے پابند تھے، جیسے کہ شرعی احکام ہیں کہ: ماں سے حسن سلوک، بیوی، بیٹی، بہن اور خواتین سے مجموعی طور پر اچھے انداز سے پیش آیا جائے۔

تو جوں جوں دینی حالت پتلی ہوتی گئی تو ان حقوق کی ادائیگی میں بھی کمی آتی گئی، لیکن پھر بھی آج اور روزِ قیامت تک کچھ لوگ ایسے موجود رہیں گے جو اپنے دین پر سختی سے کار بند ہوں گے اور اپنے رب کی شریعت کو نافذ رکھیں  گے، حقیقت میں یہی لوگ عورتوں کے حقوق صحیح طریقے سے ادا کرتے ہیں ۔

اس کے باوجود ہم کہیں گےکہ اگرچہ بہت سے مسلمانوں میں آج کل دینی اقدار کمزور ہو گئی ہیں لیکن پھر بھی خواتین کو مجموعی طور پر مسلمانوں میں ایک مقام و مرتبہ حاصل ہے، چاہے وہ ماں، بیٹی، بیوی اور بہن کسی بھی شکل میں ہو، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ کچھ مسلمانوں کے ہاں حقوقِ نسواں کی ادائیگی میں کمی کوتاہی اور سستی پائی جاتی ہے ، بہر حال انہیں اس بات کا حساب چکانا ہوگا۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب