سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا یہ جائز ہے کہ پہلے صرف عمرے کی نیت کرے پھر مکہ سے حج کی نیت کر لے؟

سوال

کیا ایسا کرنا جائز ہے کہ میقات سے گزرتے ہوئے پہلے عمرے کی نیت کر لے اور پھر مکہ میں ہی ٹھہر جائے اور پھر بعد میں فریضہ حج ادا کرے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جی ہاں ایسا کرنا جائز ہے کہ میقات سے صرف عمرے کا احرام باندھ لے، اور جب عمرے سے فارغ ہو جائے تو احرام کھول دے اور  پھر مکہ میں ٹھہر جائے پھر جب آٹھ ذو الحجہ آئے تو وہیں مکہ سے  ہی حج  کا احرام باندھ لے، اس حج کو حج تمتع کہا جائے گا؛ کیونکہ اس نے اپنے ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج کیا ہے نیز دونوں کے درمیان میں احرام بھی کھول لیا ہے۔

چونکہ حج تمتع  اسے کہتے ہیں کہ انسان حج کے مہینوں یعنی شوال، ذوالقعدہ اور عشرہ ذو الحجہ میں عمرہ کرے  اور پھر اسی سال حج کرے۔

حج تمتع کرنے والے پر مکہ میں قربانی ذبح کرنا لازمی ہے، یہ قربانی مکہ کے فقراء میں تقسیم کی جائے گی، اگر اس کے پاس قربانی کی رقم نہ ہو تو تین دن حج کے دوران  روزے رکھے اور 7 روزے اپنے گھر واپس آ کر رکھے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ )
ترجمہ: جو شخص حج کا زمانہ آنے تک عمرہ کرنے کا فائدہ اٹھانا چاہے تو وہ قربانی کرے جو اسے میسر آ سکے۔ اور اگر میسر نہ آئے تو تین روزے تو ایام حج میں رکھے اور سات گھر واپس پہنچ کر، یہ کل دس روزے ہو جائیں گے۔ [ البقرة:196]

اسی طرح اس کیلیے حج مفرد  کرنا بھی جائز ہے کہ وہ میقات سے حج کی نیت کرے اور عمرے کی نیت نہ کرے ، پھر آٹھ  تاریخ تک احرام میں ہی رہے اور پھر اپنا حج مکمل کر لے اس پر قربانی فرض نہیں ہے۔

اسی طرح اس کیلیے حج قران کرنا بھی جائز ہے ، یعنی میقات سے حج اور عمرے دونوں کی نیت کرے ، پھر مکہ پہنچ کرطواف اور سعی کر کے احرام مت کھولے، بلکہ حج کے ارکان مکمل ہونے تک احرام کی حالت میں ہی رہے۔ اس پر بھی  حج تمتع کی طرح قربانی لازمی ہو گی۔

یہ حج کے تین طریقے ہیں اور  سب کے سب جائز ہیں البتہ حج تمتع افضل ترین طریقہ ہے۔

پہلے سوال نمبر: (31822)  اور (27090)  کے جواب میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب