الحمد للہ.
اول:
تجارتى انشورنس حرام معاہدہ اور لين دين ميں شامل ہوتى ہے، اور اس كى سارى قسميں حرام ہيں، كسى شخص كے ليے بھى انشورنس ميں شامل ہونا جائز نہيں، ليكن اگر كوئى شخص ايسا كرنے پر مجبور ہو مثلا اسے اس پر مجبور كيا جائے تو پھر كوئى حرج نہيں، اس كا حكم اور تفصيل سوال نمبر ( 8889 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى اس كا مطالعہ كريں.
دوم:
انشورنس ميں شركت كرنے كى حرمت كا معنى يہ نہيں كہ انشورنس كمپنى سے اپنا حق بھى نہ ليا جائے، اگر انشورنس كمپنى كو حادثہ كرنے والے كى جانب سے حق ادا كرنے كا كہا جائے تو يہ حق لينے ميں كوئى حرج نہيں.
اس بنا پر حادثہ ميں فوت ہونے والے كى قتل خطاء، يا زخمى ہونے كى ديت كسى بھى محكمہ سے لينے ميں كوئى حرج نہيں، چاہے وہ انشورنس كمپنى ہو يا كوئى اور؛ كيونكہ ديت كے مستحق لوگ تو حق كے مالك ہيں، اور دوسرے فريق كے انشورنس كمپنى كے ساتھ معاملہ كى حلت كے وہ ذمہ دار نہيں.
ہم نے فضيلۃ الشيخ ابن جبرين حفظہ اللہ سے انشورنس كمپنى سے معاوضہ لينے كے متعلق حكم دريافت كيا تو ان كا جواب تھا:
" يہ جائز ہے، كيونكہ ان كمپنيوں نے يہ كہہ ركھا ہے كہ جو بھى ان سے انشورنس كروائيگا وہ اس كى جانب سے حادثہ كے ذمہ دار ہونگے، اور جب وہ معاوضہ دينے كے پابند ہيں تو اس معاوضہ كو لينے ميں كوئى مانع نہيں، اور حادثہ ميں ـ كسى كى وفات ہونے كى حالت ميں ـ حادثہ كے مرتكب شخص كى غلطى كى بنا پر حادثہ ہونے كى حالت ميں اس پر قتل خطا كا كفارہ باقى رہتا ہے "
واللہ اعلم .