اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

قصد اور نیت میں تفریق، علم فقہ میں مقاصد کی اہمیت

70446

تاریخ اشاعت : 18-06-2023

مشاہدات : 3364

سوال

قصد اور نیت میں کیا فرق ہے؟ نیز یہ بھی بتلائیں کہ علم فقہ میں مقاصد کی کیا اہمیت ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فقہائے کرام کی اصطلاحات کے مطابق قصد ایسے عزم کو کہتے ہیں جو کسی کام کو عملی طور پر کرنے کے لیے دل میں پیدا ہوتا ہے۔
"معجم المصطلحات والألفاظ الفقهية" (3/96)

جبکہ نیت علامہ قرافی رحمہ اللہ کی بیان کردہ تعریف کے مطابق یہ ہے کہ: "انسان دل میں کسی ایسے کام کا قصد کرے جسے وہ کرنا چاہتا ہے۔" ختم شد
"الذخيرة" (1/20)

امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ: " کسی فرض یا فرض کے علاوہ کوئی اور کام کرنے کے دلی عزم کو نیت کہتے ہیں۔" ختم شد
"المجموع" (1/310)

علامہ قرافی کی بیان کردہ تعریف کے مطابق یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نیت اور قصد دنوں قریب المعنی الفاظ ہیں، اسی لیے انہوں نے نیت کی تعریف کرتے ہوئے قصد کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

تاہم ابن قیم رحمہ اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ دونوں میں فرق ہے، چنانچہ آپ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ : "نیت اور قصد دونوں ایک ہی چیز ہیں، تاہم ان دونوں میں دو اعتبار سے تفریق بھی ہے:
پہلی تفریق: قصد کا تعلق خود فعل پر عمل کرنے والے فاعل کے فعل سے بھی ہے اور غیر فاعل کے فعل سے بھی ہو سکتا ہے، جبکہ نیت صرف اور صرف فاعل کے فعل سے ہی تعلق رکھتی ہے، چنانچہ ایسا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے عمل کی نیت کرے، جبکہ یہ تصور ممکن ہے کہ کوئی کسی دوسرے کے فعل کا قصد اور ارادہ کرے۔

دوسری تفریق: قصد صرف ایسے فعل کا ہوتا ہے جسے کرنے کی صلاحیت فاعل میں خود موجود ہوتی ہے، جبکہ نیت انسان کبھی ایسے کام کی بھی کرتا ہے جس کی صلاحیت ہوتی ہے اور کبھی ایسے کام کی بھی کر لیتا ہے جس کے کرنے کی صلاحیت ابھی انسان میں نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ ابو کبشہ انماری کی روایت میں نیت اور قصد میں تفریق بیان کی گئی ہے اس حدیث کو امام احمد اور امام ترمذی وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں: (دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے: ایک شخص کو اللہ تعالی نے مال اور علم دونوں سے نوازا ہے، چنانچہ وہ اپنے مال میں تقوی الہی اپناتا ہے اور اپنے مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے، اور یہ بھی جانتا ہے کہ اس مال میں اللہ تعالی کا حق ہے؛ ایسا شخص اللہ تعالی کے ہاں افضل ترین قام پر ہے۔ دوسرا شخص: جسے اللہ تعالی نے علم تو دیا ہے لیکن اسے دولت سے نہیں نوازا، لیکن وہ نیت یہ رکھتا ہے کہ : اگر مجھے بھی دولت ملے تو میں بھی اسے فلاں سخی کی طرح خرچ کروں، تو یہ شخص اپنی نیت کی وجہ سے اجر لے جاتا ہے اور دونوں اجر میں یکساں ہو جاتے ہیں۔ تیسرا شخص: جسے اللہ تعالی نے دولت تو دی ہے لیکن اسے علم نہیں دیا تو یہ مقام اللہ تعالی کے ہاں بد تر مقام ہے۔ پھر فرمایا: اور چوتھا شخص: جسے اللہ تعالی نے مال کے ساتھ علم بھی نہیں دیا، لیکن یہ شخص نیت یہ رکھتا ہے کہ: اگر مجھے بھی دولت ملے تو میں بھی فلاں جاہل کی طرح اسے خرچ کروں، تو یہ بھی اپنی نیت کی وجہ سے گناہ پاتا ہے اور یہ دونوں گناہ میں یکساں ہو جاتے ہیں۔) لہذا اس حدیث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ نیت مقدور عمل اور غیر مقدور عمل دونوں کے متعلق ہو سکتی ہے، لیکن قصد اور ارادے میں ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ دونوں ایسے عمل کے متعلق نہیں ہو سکتے جس کی استطاعت نہ انسان خود رکھتا ہو اور نہ ہی کوئی دوسرا اس کی استطاعت رکھ سکے۔" ختم شد
"بدائع الفوائد" (3/190)

مزید کے لیے دیکھیں:
"القواعد الكلية والضوابط الفقهية" از ڈاکٹر محمد عثمان شبیر، صفحہ: (93 ، 94)

دوم:

مقاصد کی علم فقہ میں بہت زیادہ اہمیت ہے، مقاصد کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کلی قواعد کبری میں یہ قاعدہ بھی شامل ہے کہ: تمام امور ان کے مقاصد کے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہ قاعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان مبارک : (یقیناً اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے، اور ہر شخص کو یقیناً اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا۔) سے اخذ کیا گیا ہے جسے امام بخاری: (1) اور مسلم : (1907) نے روایت کیا ہے۔

چنانچہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں:
"ذہن نشین کر لیں کہ اہل علم ائمہ کرام کی جانب سے حدیثِ نیت کی جلالت کے متعلق تواتر کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ابو عبید رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول احادیث مبارکہ میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جس میں اس حدیث سے زیادہ علمی فوائد ہوں" اسی طرح امام شافعی، امام احمد بن حنبل، ابن مہدی، ابن مدینی، ابو داود، اور دارقطنی رحمہم اللہ سمیت متعدد اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ یہ حدیث ایک تہائی علم پر مشتمل ہے۔ جبکہ کچھ اہل علم کہتے ہیں صرف اس ایک حدیث میں ایک چوتھائی علم بیان کیا گیا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ اس حدیث میں ایک تہائی علم بیان ہونے کی توجیہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ انسان کے اعمال دل، زبان، اور اعضا سے صادر ہوتے ہیں، اور نیت ان تینوں میں سے سب سے زیادہ اہم اور وزنی چیز ہے؛ کیونکہ زبانی اور فعلی اعمال نیت کے بغیر عبادت نہیں ہو سکتے، لیکن بسا اوقات صرف نیت زبانی اور فعلی عمل کے بغیر عبادت بن جاتی ہے لہذا معلوم ہوا کہ نیت کو عمل اور قول کی ضرورت نہیں، جبکہ دیگر اعمال کو نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ یہاں تک کہتے ہیں کہ: امام شافعی رحمہ اللہ اس حدیث کو ستر مختلف ابواب میں مؤثر سمجھتے ہیں۔" ختم شد
"الأشباه والنظائر" صفحہ: 9

تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقاصد کی اہمیت اور انہیں معتبر سمجھنا بہت ضروری ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب