الحمد للہ.
اس سلسلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك حديث وارد ہے، ليكن وہ ضعيف ہے، اسے امام سيوطى رحمہ اللہ نے " الجامع الصغير " ميں ابن شاہين كى ترغيب كى طرف منسوب كيا ہے، اور ضياء نے جرير بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ سے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" فطرانہ كے بغير رمضان المبارك كے روزے اللہ كى طرف نہيں اٹھائے جاتے، بلكہ وہ زمين و آسمان كے مابين معلق رہتے ہيں "
سيوطى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف قرار ديا ہے، اور مناوى رحمہ اللہ نے " فيض القدير " ميں ا س كے ضعف كا سبب بيان كرتے ہوئے كہا ہے: اسے ابن الجوزى نے " الواھيات " ميں نقل كيا اور كہا ہے: يہ صحيح نہيں، اس ميں محمد بن عبيد البصرى مجھول ہے.
اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى " السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ " حديث نمبر ( 43 ) ميں اسے ضعيف قرار دينے كے بعد كہا ہے: پھر اگر يہ حديث صحيح بھى ہو تو اس كا ظاہر اس پر دلالت كريگا كہ فطرانہ كى ادائيگى تك رمضان المبارك كے روزوں كى قبوليت موقوف رہےگى، تو جو شخص فطرانہ ادا نہيں كريگا، اس كے روزے قبول نہيں ہونگے، اور ميرے علم ميں تو نہيں كہ كسى بھى اہل علم نے ايسا كہا ہو..... اور يہ حديث صحيح نہيں " انتہى. مختصرا.
اور جب حديث ہى صحيح نہيں تو پھر كوئى بھى يہ نہيں كہہ سكتا كہ فطرانہ كے بغير رمضان كے روزے قبول نہيں ہوتے، كيونكہ ا سكا علم تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے علاوہ كسى اور سے نہيں ہو سكتا.
اور سنن ابو داود ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث ميں ثابت ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لغو اور بےہودہ باتوں سے روزہ دار كى پاكى، اور مسكينوں كى غذا كے ليے فطرانہ فرض كيا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1609 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
تو يہ حديث فطرانہ كے فرض ہونے كى حكمت بھى بيان كر رہى ہے كہ روزے كى حالت ميں جو كمى و كوتاہى ہوجاتى ہے وہ فطرانہ پورى كرتا ہے، اور حديث ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ فطرانہ كے بغير روزہ قبول ہى نہيں ہوتا.
واللہ اعلم .