سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا وضوء ميں سر كے كچھ حصہ كا مسح كرنا كافى ہے ؟

70530

تاریخ اشاعت : 22-01-2011

مشاہدات : 7642

سوال

كيا وضوء ميں سر كى پچھلى طرف تھوڑے سے حصے كا مسح كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمانوں كا اجماع ہے كہ وضوء ميں سر كا مسح كرنا واجب ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو جب تم نماز كے ليے كھڑے ہوؤ تو اپنے چہرے اور كہنيوں تك ہاتھ دھو لو، اور اپنے سروں كا مسح كرو، اور اپنے ٹخنوں تك اپنے پاؤں دھوؤ المآئدۃ ( 6 ).

فقھاء كرام اس پر متفق ہيں كہ سارے سر كا مسح كيا جائے، ليكن اس ميں اختلاف ہے كہ مكمل سر كا مسح كرنا واجب ہے يا نہيں ؟

مالكى اور حنبلى سارے سر كا مسح كرنا واجب قرار ديتے ہيں.

اور حنفى اور شافعى كہتے ہيں كہ سر كے كچھ حصے كا مسح كرنا بھى كافى ہے.

مالكيہ اور حنابلہ نے كئى ايك دلائل سے استدلال كيا ہے:

1 - اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور اپنے سروں كا مسح كرو . اس ميں سارا سر شامل ہے، اور يہ آيت اور اپنے سروں كا مسح كرو بھى تيمم كى آيت:

پاكيزہ مٹى سے تيمم كرو اور اپنے چہروں اور ہاتھ كا اس سے مسح كرو .

كى طرح ہى ہے، چنانچہ تيمم ميں سارے سر كا مسح كرنا واجب ہے، تو اسى طرح يہاں سر كا مسح بھى پورا كرنا ہوگا.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 21 / 125 ).

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" سر كے كچھ حصے كا مسح كرنے والے كے متعلق فقھاء كرام كا اختلاف ہے، چنانچہ امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں: پورے سر كا مسح كرنا فرض ہے، اگر اس نے سر كا كچھ حصہ چھوڑ ديا تو وہ اسى طرح ہے جس طرح كوئى شخص چہرے كا كچھ حصہ نہ دھوئے، امام مالك كا يہ مسلك معروف ہے، اور ابن عليہ كا قول بھى يہى ہے وہ كہتے ہيں:

اللہ تعالى نے وضوء ميں اسى طرح سر كا مسح كرنے كا حكم ديا ہے جس طرح تيمم ميں مٹى كے ساتھ چہرے كا مسح كرنے اور وضوء ميں چہرہ دھونے كا حكم ديا ہے.

فقھاء اس پر متفق ہيں كہ وضوء ميں چہرے كا كچھ حصہ دھونا جائز نہيں، اور نہ ہى تيمم ميں چہرے كے بعض حصے پر مسح كرنا، تو سر كا مسح بھى اسى طرح ہے " انتہى.

ديكھيں: التمھيد ( 20 / 114 ).

2 - انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فعل اور عمل سے استدلال كيا ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ ثابت نہيں كہ آپ نے سر كے كچھ حصہ كا مسح كرنے پر اكتفا كيا ہو.

احناف اور شافعيہ نے بھى كئى ايك دلائل سے استدلال كيا ہے:

1 - فرمان بارى تعالى ہے:

اور اپنے سروں كا مسح كرو .

ان كا كہنا ہے كہ يہاں باء تبعيض كے ليے ہے، گويا كہ اللہ تعالى كا فرمان اس طرح ہے: اور اپنے سر كے بعض حصے كا مسح كرو.

اس كا جواب يہ ديا گيا ہے كہ يہاں باء تبعيض كے ليے نہيں، بلكہ باء الصاق كے معنى ميں ہے، اور الصاق كا معنى يہ ہے كہ جس پانى كے ساتھ سر كا مسح كيا جائے اس كا سر كے ساتھ لگنا ضرورى ہے.

ديكھيں: مجموع فتاوى ( 21 / 123 ).

2 - مسلم شريف كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:

مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى پيشانى اور پگڑى پر مسح كيا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 247 ).

ان كا كہنا ہے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پيشانى كا مسح كرنے پر اكتفا كيا، اور يہ سر كا اگلا حصہ ہے.

اس كا جواب يہ ديا گيا ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى پيشانى كا مسح كيا، اور پگڑى پر مسح مكمل كيا، اور پگڑى پر مسح كرنا سر پر مسح كرنے كے قائم مقام ہے.

زاد المعاد ميں ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" كسى ايك حديث ميں بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں كہ انہوں نے سر كے كچھ حصہ پر مسح كرنے پر اكتفا كيا ہو، ليكن جب اپنى پيشانى پر مسح كيا تو پگڑى پر مسح مكمل كيا " انتہى.

ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 193 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" يہاں پيشانى پر مسح اس ليے اكتفا كر گيا كيونكہ اس كے ساتھ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى پگڑى پر مسح كيا تھا، چنانچہ صرف پيشانى پر مسح كرنے پر دلالت نہيں ہے " انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 178 ).

اس سے يہ ظاہر ہوا كہ دونوں ميں راجح قول يہى ہے كہ وضوء ميں پورے سر كا مسح كرنا واجب ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

27 وضوء ميں سارے سر كا مسح كرنا واجب ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور اپنے سروں كا مسح كرو.

اور بخارى و مسلم كى حديث ميں عبد اللہ بن زيد بن عاصم رضى اللہ تعالى عنہ وضوء كا طريقہ بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سر كا مسح كيا تو اپنے ہاتھوں كو آگے سے پيچھے كى طرف لے گئے "

اور ايك روايت كے الفاظ ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سر كے اگلے حصہ سر شروع كيا حتى كہ دونوں ہاتھ اپنى گدى تك لے گئے، پھر ہاتھ وہيں لے آئے جہاں سے شروع كيا تھا " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 2 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اگر صرف اپنى پيشانى پر مسح كرے اور باقى سر پر نہ كرے تو يہ مسح كفائت نہيں كريگا، كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:

اور اپنے سروں كا مسح كرو المآئدۃ ( 6 ).

اللہ تعالى نے يہ نہيں فرمايا كہ: اپنے سروں كے كچھ حصے كا مسح كرو. انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 187 ).

سر كا مسح كرنے كا طريقہ سوال نمبر ( 45867 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے، اس كا مطالعہ كر ليں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب