الحمد للہ.
اول:
كلى اور ناك ميں پانى چڑھانے كے بعد چہرہ دھوتے وقت ناك ميں داخل ہونے والا پانى نكالنے ميں كوئى حرج نہيں، ايسا كرنا تين بار سے زيادہ شمار نہيں ہو گا، كيونكہ آپ نے قصدا پانى داخل نہيں كيا.
علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ چہرہ دھونے ميں بہتر يہ ہے كہ اوپر سے چہرہ دھونا شروع كيا جائے، ہو سكتا ہے جب آپ ايسا كريں تو اس طرح آپ كے ناك ميں پانى داخل نہ ہو.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" الماوردى رحمہ اللہ كا كہنا ہے: چہرہ دھونے كا مستحب طريقہ يہ ہے كہ دونوں ہاتھوں ميں پانى ليا جائے، كيونكہ يہ ممكن اور زيادہ اچھا ہے، اور چہرہ اوپر سے نيچے كى جانب دھويا جائے؛ اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسا ہى كيا كرتے تھے.
اور اس ليے بھى كہ اوپر والا حصہ زيادہ مرتبہ ركھتا ہے، كيونكہ وہ سجدہ كى جگہ ہے، اور يہ زيادہ ممكن بھى ہے اس طرح كرنے سے طبعى طور پر پانى نيچے كى جانب جائےگا پھر وہ اپنے سارے چہرے پر ہاتھ پھيرے جہاں تك پانى پہنچانے كا حكم ہے، اور اگر وہ كسى اور طرح سے پانى پہنچائے تو بھى كفائت كر جائيگا" انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 215 ).
مواھب الجليل ميں بھى چہرہ دھونے كا طريقہ بيان كيا گيا ہے كہ: چہرہ اوپر والى جانب سے دھونا شروع كيا جائے"
ديكھيں: مواھب الجليل ( 1 / 187 ).
دوم:
سنت سے ثابت ہے كہ تين بار ناك ميں پانى ڈال كر ناك جھاڑا جائے جيسا كہ بخارى اور مسلم كى درج ذيل حديث ميں ہے:
عبد اللہ بن زيد رضى اللہ تعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا وضوء كر كے دكھايا .... چنانچہ انہوں نے ايك ہى چلو سے كلى كى اور ناك ميں پانى ڈالا، انہوں نے تين بار يہ عمل كيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 186 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 235 ) يہ الفاظ مسلم شريف كے ہيں.
يہ حديث اس كى دليل ہے كہ كلى اور ناك ميں پانى ڈالنے ميں وقفہ اور فاصلہ نہيں ہونا چاہيے، بلكہ كلى اور ناك ميں پانى ايك ہى چلو سے ڈالا جائے، پھر وہ كلى كرے اور ناك ميں پانى چڑھائے، پھر كلى كرے اور ناك ميں پانى چڑھائے، لوگوں كى طرح دونوں كو عليحدہ عليحدہ نہ كرے، چنانچہ وہ تين بار كلى كرے اور تين بار ہى ناك ميں پانى چڑھائے.
مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" ہمارے اصحاب كا كہنا ہے كہ: كسى بھى طريقہ سے مونہہ اور ناك ميں پانى پہنچے كلى اور استنشاق ہو جائيگا، افلضيت ميں پانچ قسم ہيں:
اول: تين چلوؤں كے ساتھ كلى كرے اور ناك ميں پانى چڑھائے، يعنى ہر چلو سے كلى كرے اور ناك ميں پانى چڑھائے... يہ وجہ صحيح ہے، بخارى اور مسلم وغيرہ كى احاديث ميں بھى اسى كا ذكر آيا ہے، جس حديث ميں ان دونوں كے درميان فرق اور فاصلہ كا ذكر ہے وہ حديث ضعيف ہے، جيسا كہ ہم بيان كر چكے ہيں اس سے تين چلو كى تعيين ہو جاتى ہے، جيسا كہ عبد اللہ بن زيد كى حديث ميں بيان ہوا ہے " انتہى.
ليكن تين بار سے زيادہ بار كرنا مكروہ ہے، اس كى دليل نسائى ابن ماجہ اور ابو داود كى درج ذيل حديث ہے.
عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ بيان كرتے ہيں كہ ايك اعرابى شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور وضوء كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے تين تين بار وضوء كر كے دكھايا، اور پھر فرمانے لگے: وضوء اس طرح ہے، جس نے بھى اس سے زيادہ كيا اس نے برا كام كيا اور زيادتى اور ظلم كا مرتكب ٹھرا "
سنن نسائى حديث نمبر ( 140 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 135 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 422 )، علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح نسائى ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى اپنى سابقہ كلام كو مكمل كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" علماء كرام كا اتفاق ہے كہ تين بار سے زيادہ مكروہ ہے، تين بار سے مراد عضو كو مكمل دھونا ہے، اگر كوئى عضوء دو چلو كے بغير نہيں دھويا جاتا تو يہ ايك بار دھونا شمار ہو گا.
اور اگر كسى كو شك ہو كہ دو بار دھويا ہے يا تين بار ؟ تو اسے دو بار قرار دے اور تيسرى بار دھو لے، ہمارے اصحاب ميں سے جمہور علماء كا يہى كہنا ہے، ہمارے اصحاب ميں سے شيخ ابو محمد الجوينى رحمہ اللہ كہتے ہيں: اسے تين بار كرے، اور چوتھى بار نہ دھوئے كہ كہيں يہ بدعت ہى نہ بن جائے اور پہلا طريقہ ہى قواعد پر جارى ہے، اگر كوئى شخص جان بوجھ كر عمدا چار بار دھوئے تو يہ منكر قسم كى بدعت شمار ہو گى" واللہ اعلم انتہى.
حاصل يہ ہوا كہ: بغير قصد اور ارادہ ناك ميں داخل ہونے والے پانى نكالنے ميں آپ پر كچھ لازم نہيں آتا، اور نہ ہى اسے وضوء ميں زيادتى شمار كيا جائيگا، كيونكہ آپ نے عمدا ايسا نہيں كيا.
واللہ اعلم .