الحمد للہ.
بيگ سے والد كے علم كے بغير آپ كا پيسے نكالنا ايك ظاہرا قبيح اور برا عمل، الحمد للہ اللہ تعالى نے آپ كو اس سے توبہ كرنے اور صحيح راہ كى توفيق نصيب فرمائى ہے، اور آپ كى توبہ ميں يہ بھى شامل ہے كہ آپ وہ مال اپنے والد كو واپس كريں جو ليا گيا ہے.
اور اگر آپ كے ليے والد كو اس كا علم ہونا ان كى ناراضگى كا باعث ہے، يا پھر آپ پر عدم اعتماد كا باعث ہو تو آپ انہيں كسى بھى طريقہ اور وسيلہ سے وہ مال واپس كريں، اور انہيں اس كا علم بھى نہ ہو سكے، مثلا آپ وہ رقم ان كے بيگ ميں ركھ ديں، يا كوئى اور طريقہ اختيار كريں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميں بچپن ميں جب ديكھتا كہ والد صاحب نے كوئى چيز ركھى ہے چاہے وہ پيسے ہوتے يا كوئى اور نفع والى چيز تو ميں وہ اٹھا ليتا، اور والد صاحب كو اس كا علم بھى نہ ہوتا، اور جب ميں بڑا ہوا تو مجھے اللہ سے ڈر لگنے لگا تو ميں نے يہ كام ترك كر ديا، اور كيا اب ميرے ليے جائز ہے كہ ميں اپنے والد صاحب كے سامنے اس كا اعتراف كروں يا نہ ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" آپ كے ليے واجب اور ضرورى ہے كہ آپ نے اپنے والد كى جو نقدى يا كوئى اور چيز لى تھى وہ واپس كريں، ليكن اگر وہ خرچ كے ليے بالكل معمول سى چيز تھى تو اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والا فتاء ( 15 / 352 ).
اور كميٹى كے علماء كرام سے يہ سوال بھى ہوا كہ:
اگر كوئى انسان مال چورى كرے اور پھر وہ اس سے توبہ كرنا چاہے اور مالك كے علم كے بغير ہى وہ اس كا مال واپس كر دے تو اس كى توبہ كا حكم كيا ہو گا ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" اگر واقعتا ايسا ہى ہے جيسا آپ نے بيان كيا ہے، اور وہ اپنى توبہ ميں سچا ہو اور صدق دل كے ساتھ توبہ كرنا چاہتا ہو، اور اپنے كيے پر نادم بھى ہو، اور اس نے پختہ عزم كيا ہو كہ وہ آئندہ ايسا كام نہيں كريگا تو اس كى توبہ صحيح ہے، اور مال كى لاعلمى ميں مسروقہ مال اسے واپس كرنے سے اس كى توبہ كو اس سے كوئى نقصان نہيں پہنچے گا " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 24 / 355 ).
واللہ اعلم .