بدھ 12 جمادی اولی 1446 - 13 نومبر 2024
اردو

والد كا چورى كردہ مال بغير خبر ديے واپس كرنا

71249

تاریخ اشاعت : 20-06-2007

مشاہدات : 5750

سوال

والد صاحب اپنى رقم ركھنے كے ليے گھر ميں ايك بيگ استعمال كيا كرتے تھے، ايك بار مجھے اپنا قرض واپس كرنے كے ليے رقم كى ضرورت تھى تو ميں نے وہ بيگ كھول كر كچھ رقم اڑا لى، كيونكہ ميں كوئى كام نہيں كرتا تھا، اور ميں نے ايسا كئى بار كيا حتى كہ والد صاحب كو محسوس ہونے لگا كہ پيسے كم ہونے لگے ہيں، ليكن انہيں يہ علم نہ ہو سكا كہ رقم كون نكالتا ہے.
كچھ عرصہ بعد الحمد للہ اللہ تعالى نے مجھے ہدايت نصيب فرمائى اور ميں اسلامى امور پر صحيح طريقہ سے عمل پيرا ہو گيا اور مجھے معلوم گيا والد صاحب كے علم كے بغير پيسے نكالنا ميرى غلطى تھى، اور اب ميں نے فيصلہ كيا ہے كہ انشاء اللہ جب ميں كام كرنے لگوں گا تو اپنے والد صاحب كى نكالى ہوئى رقم واپس كرونگا، اور والد صاحب كے علم كے بغير ہى وہ رقم ان كے بيگ ميں ركھ دونگا.
سوال يہ ہے كہ: كيا ميں والد صاحب كو بتائے بغير ہى ان كى رقم بيگ ميں ركھ دوں، كيونكہ مجھے خدشہ ہے كہ وہ مجھ پر ناراض ہونگے، اس ليے كہ ميں اپنے والد صاحب كے ساتھ ہى كام كرونگا، جس كى بنا پر خدشہ ہے كہ وہ مجھ پر اعتماد نہيں كرينگے. اس ليے برائے مہربانى آپ يہ بتائيں كہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيگ سے والد كے علم كے بغير آپ كا پيسے نكالنا ايك ظاہرا قبيح اور برا عمل، الحمد للہ اللہ تعالى نے آپ كو اس سے توبہ كرنے اور صحيح راہ كى توفيق نصيب فرمائى ہے، اور آپ كى توبہ ميں يہ بھى شامل ہے كہ آپ وہ مال اپنے والد كو واپس كريں جو ليا گيا ہے.

اور اگر آپ كے ليے والد كو اس كا علم ہونا ان كى ناراضگى كا باعث ہے، يا پھر آپ پر عدم اعتماد كا باعث ہو تو آپ انہيں كسى بھى طريقہ اور وسيلہ سے وہ مال واپس كريں، اور انہيں اس كا علم بھى نہ ہو سكے، مثلا آپ وہ رقم ان كے بيگ ميں ركھ ديں، يا كوئى اور طريقہ اختيار كريں.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ميں بچپن ميں جب ديكھتا كہ والد صاحب نے كوئى چيز ركھى ہے چاہے وہ پيسے ہوتے يا كوئى اور نفع والى چيز تو ميں وہ اٹھا ليتا، اور والد صاحب كو اس كا علم بھى نہ ہوتا، اور جب ميں بڑا ہوا تو مجھے اللہ سے ڈر لگنے لگا تو ميں نے يہ كام ترك كر ديا، اور كيا اب ميرے ليے جائز ہے كہ ميں اپنے والد صاحب كے سامنے اس كا اعتراف كروں يا نہ ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" آپ كے ليے واجب اور ضرورى ہے كہ آپ نے اپنے والد كى جو نقدى يا كوئى اور چيز لى تھى وہ واپس كريں، ليكن اگر وہ خرچ كے ليے بالكل معمول سى چيز تھى تو اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والا فتاء ( 15 / 352 ).

اور كميٹى كے علماء كرام سے يہ سوال بھى ہوا كہ:

اگر كوئى انسان مال چورى كرے اور پھر وہ اس سے توبہ كرنا چاہے اور مالك كے علم كے بغير ہى وہ اس كا مال واپس كر دے تو اس كى توبہ كا حكم كيا ہو گا ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" اگر واقعتا ايسا ہى ہے جيسا آپ نے بيان كيا ہے، اور وہ اپنى توبہ ميں سچا ہو اور صدق دل كے ساتھ توبہ كرنا چاہتا ہو، اور اپنے كيے پر نادم بھى ہو، اور اس نے پختہ عزم كيا ہو كہ وہ آئندہ ايسا كام نہيں كريگا تو اس كى توبہ صحيح ہے، اور مال كى لاعلمى ميں مسروقہ مال اسے واپس كرنے سے اس كى توبہ كو اس سے كوئى نقصان نہيں پہنچے گا " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 24 / 355 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب