الحمد للہ.
بلا شبہ ناموں کی انسانی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت ہے؛ کیونکہ نام ہی ہر شخص کی علامت ٹھہرتا ہے، نام ہی ہر شخص کا پتہ بتلاتا ہے، پھر کسی بھی شخص سے کسی اور کے بارے میں بات کی جائے تو نام سے ہی کی جاتی ہے؛ اسم در حقیقت مسمی کی شان ہوتا ہے، اسی نام کے ذریعے اسے دنیا و آخرت میں پکارا جائے گا، کسی بھی شخص کی دینداری اس کا نام لے کر بیان کی جاتی ہے، لوگوں کی فطرت میں انسانی ناموں کی مخصوص چھاپ اور معنی خیزی موجود ہے، نام کا معاملہ بھی لباس کی طرح ہے لونڈا لباس بھی برا لگتا ہے اور لمبا لباس بھی اچھا نہیں لگتا۔
ناموں کے بارے میں اصل حکم مباح اور جواز کا ہے۔ لیکن پھر بھی نام رکھتے ہوئے کچھ شرعی پابندیاں ہیں جنہیں ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔، جن میں سے چند یہ ہیں:
-غیر اللہ کے نام کے ساتھ عبد کا سابقہ لگانا، چاہے کسی نبی کا نام ہو یا مقرب فرشتے کا غیر اللہ کے نام کے ساتھ عبد کا سابقہ لگانا مطلقا جائز نہیں ہے، مثلاً: عبد الرسول، عبد النبی، عبد الامیر وغیرہ جیسے نام کہ جن میں غیر اللہ کے نام سے پہلے عبد کا لفظ استعمال کیا جائے۔ اگر کسی نے خود اپنا نام ایسا رکھا ہو یا اس کے گھر والوں نے رکھ دیا ہو تو اسے تبدیل کرنا لازم ہے۔ جیسے کہ جلیل القدر صحابی عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پہلے میرا نام عبد عمرو تھا، ایک روایت کے مطابق عبد الکعبہ تھا، تو جب میں مسلمان ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرا نام عبد الرحمن رکھا۔ اس حدیث کو حاکم (3/306)نے بیان کیا ہے اور علامہ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
-کافروں کے ایسے مخصوص نام رکھنا جو صرف کافر ہی رکھتے ہیں کوئی اور نہیں رکھتا، مثلاً: عبد المسیح، پطرس اور جرجس وغیرہ جو کہ صرف کفریہ ملت ہی کی علامت ہیں۔
-بچوں کے نام بتوں ، طاغوتوں اور معبودانِ باطلہ کے نام پر رکھے جائیں، مثلاً: شیطان یا اسی طرح کا کوئی اور نام رکھنا۔
مندرجہ بالا کوئی بھی نام رکھنا محض ناجائز ہی نہیں بلکہ حرام بھی ہے، اگر کسی نے اپنا نام یا کسی اور نے کسی کا نام ان ناموں میں سے رکھا ہے تو وہ لازمی طور پر اسے تبدیل کر دے۔
-ایسے نام رکھنا مکروہ ہے جن ناموں کے معانی اچھے نہ ہوں کہ وہ یا تو غلط معنی رکھتے ہیں یا مذاق کا باعث بنتے ہیں، ایسے نام رکھنے سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دی ہوئی تعلیمات کی نافرمانی بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اچھے نام رکھنے کی تلقین فرمائی ہے، مثلاً: حرب [یعنی جنگ] ، رشاش [یعنی چھڑکاؤ]، ھیام یہ ایک بیماری کا نام ہے جو اونٹوں وغیرہ کو لگتی ہے، تو اس طرح کے برے مفہوم یا ناپسندیدہ معانی رکھنے والے نام رکھنا مکروہ ہے۔
-ایسے نام رکھنا مکروہ ہے جن میں شہوانیت یا غیر معمولی جاذبیت پائی جاتی ہے، یہ چیز بچیوں کے نام رکھتے ہوئے پائی گئی ہے، مثلاً: ایسے نام رکھے جاتے ہیں جن میں جنسی اور شہوانی اشتعال پایا ہے۔
-جانتے بوجھتے ہوئے فاسق گلو کار، گلوکاراؤں، ادا کار اور اداکاراؤں کے نام پر نام رکھنا بھی مکروہ ہے، اگر ان میں سے کسی کا نام اچھے معنی اور مفہوم والا ہو تو پھر اس نام کے اچھے معنی اور مفہوم کی وجہ سے بچے کا نام رکھا جائے گا، اس لیے نہیں کہ ان لوگوں کی مشابہت ہو یا بچہ ان کے نقش قدم پر چلے۔
- ایسا نام رکھنا مکروہ ہے جس میں گناہ اور نافرمانی کا مفہوم پایا جاتا ہے، مثلاً: سارق [یعنی چور] ، ظالم یا جبر و استبداد کی علامات کے طور پر معروف لوگ جیسے فرعون، ہامان، اور قارون وغیرہ۔
-ایسے جانداروں کے نام پر نام رکھنا بھی مکروہ ہے جن میں قابل کراہت صفات پائی جاتی ہیں، مثلاً: گدھا، کتا، اور بندر وغیرہ کا رکھنا۔
-اسی طرح دین اور اسلام کے ساتھ مرکب اضافی والے نام رکھنا بھی مکروہ ہے، مثلاً: نور الدین، شمس الدین ایسے ہی نور الاسلام اور شمس الاسلام وغیرہ؛ کیونکہ ایسے ناموں میں غلو پایا جاتا ہے، سلف صالحین بھی ایسے القابات رکھنا مکروہ سمجھتے تھے، جیسے کہ امام نووی رحمہ اللہ اس بات کو مکروہ سمجھتے تھے کہ کوئی انہیں محی الدین کے لقب سے پکارے۔ اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی یہ ناپسند کرتے تھے کہ انہیں کوئی تقی الدین کے لقب سے پکارے؛ آپ کہا کرتے تھے کہ: یہ لقب میرے گھر والوں نے میرا رکھ دیا اور مشہور ہو گیا۔
-لفظ جلالہ "اللہ" سے پہلے عبد کے علاوہ کوئی اور لفظ لگانا مکروہ ہے، مثلاً: "حسب اللہ" اور "رحمت اللہ" وغیرہ ایسے ہی لفظ "الرسول" سے پہلے الفاظ لگا کر بھی نام رکھنا مکروہ ہے۔
- فرشتوں اور قرآنی سورتوں کے ناموں پر نام رکھنا بھی مکروہ ہے، مثلاً: طہ، یاسین وغیرہ، کیونکہ یہ حروف مقطعات ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے نام نہیں ہیں۔ تفصیلات کے لیے ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب" تحفة المولود " صفحہ: 109 کا مطالعہ کریں۔
مندرجہ بالا تمام نام رکھنا مکروہ ہیں، اور یہ کراہت ابتداءً ہے، یعنی کوئی نام رکھنا چاہے تو نہ رکھے، لیکن جس کا نام اس کے گھر والوں نے انہی مکروہ ناموں میں سے رکھ دیا ہے اور اب وہ بڑا بھی ہو چکا ہے، اسے تبدیل کروانا بھی بہت مشکل ہے تو اس پر نام تبدیل کرنا واجب نہیں ہے۔
ناموں کے 4 درجے ہیں:
سب سے پہلا درجہ: عبد اللہ اور عبد الرحمن کا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کے محبوب ترین نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں۔) اس حدیث کو امام مسلم ؒ (1398) نے روایت کیا ہے ۔
دوسرا درجہ: اسمائے حسنی پر مشتمل عبد کے سابقے کے ساتھ رکھے جانے والے نام، مثلاً: عبد العزیز، عبد الرحیم، عبد الملک، عبد الالٰہ، اور عبد السلام وغیرہ جن میں اللہ تعالی کے لیے عبودیت کا اظہار ہے۔
تیسرا درجہ: انبیائے کرام اور رسولوں کے نام، اور بلا شبہ ان میں سے سب سے بہترین اور افضل ترین ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں، اور آپ کے ناموں میں احمد بھی شامل ہے۔ اس کے بعد اولو العزم پیغمبروں کے نام ہیں جو کہ ابراہیم، موسی، عیسی، اور نوح علیہ السلام ہیں، ان کے بعد دیگر تمام انبیائے کرام کے نام آتے ہیں۔
چوتھا درجہ: اللہ تعالی نے نیک بندوں کے نام، اور ان میں سب سے پہلے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام آتے ہیں، چنانچہ صحابہ کرام کے نام پر نام اس لیے رکھنا کہ صحابہ کرام کی اقتدا بھی ہو اور اپنے درجات بھی بلند ہوں ، یہ مستحب عمل ہے۔
پانچواں درجہ: کوئی بھی اچھا نام جس کا معنی بھی خوبصورت ہو۔
بیٹوں کے نام رکھتے ہوئے کچھ امور کا خیال رکھنا اچھا ہے، جو کہ درج ذیل ہیں:
1-آپ کا رکھا ہوا نام ساری زندگی بچے کے ساتھ رہے گا، تو اگر نام اچھا نہ ہوا تو بچہ اپنے والد، یا والدہ یا جس نے بھی نام تجویز کیا اس کے متعلق دل میں تنگی محسوس کرے گا۔
2-مختلف ناموں میں سے کوئی نام منتخب کرتے ہوئے ناموں کو مختلف زاویوں سے دیکھیں کہ بذات خود نام کیسا ہے؟ پھر یہ دیکھیں کہ یہ نام بچے کے بچپن ، جوانی ، پھر بزرگی اور والد بننے کے مراحل میں کیسا رہے گا؟ نیز اگر اس نام پر کنیت رکھے تو اس کا مطلب کیا بنے گا، اور بیٹے کا نام باپ کے نام کے ساتھ مل کر کیا مفہوم پیش کرتا ہے؟ اسی طرح کے دیگر امور کو بھی مد نظر رکھیں۔
3-نام رکھنا والد کا شرعی حق ہے؛ کیونکہ یہ بچہ والد کی طرف ہی منسوب ہو گا، تاہم والد کے لیے مستحب ہے کہ نام کے انتخاب میں بچے کی والدہ کو بھی شریک کرے اور اس سے مشورہ لے، چنانچہ اگر اچھا مشورہ دے تو اپنی اہلیہ کو خوش کرنے کے لیے اس کی رائے قبول بھی کرے۔
4- بچے کی نسبت والد کی طرف ہی ہو گی چاہے والد فوت ہو چکا ہو، یا طلاق دہندہ ہو یا ماں باپ میں جدائی ہو چکی ہو، چاہے والد نے بچے کا کبھی خیال نہ رکھا ہو اور نہ ہی اسے دیکھا ہو۔ لہذا بچے کی نسبت کسی بھی صورت میں غیر والد کی جانب کرنا حرام ہے، صرف ایک صورت میں بچے کی نسبت صاحب نطفہ کی طرف نہیں ہو گی اور وہ یہ ہے کہ بچے کی پیدائش -نعوذ باللہ- زنا کی وجہ سے ہو، تو ایسی صورت میں بچہ ماں کی طرف منسوب ہو گا، اور اس کی نسبت صاحب نطفہ کی طرف کرنا جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم