الحمد للہ.
فقھاء كرام كى ايك جماعت نے مستحب قرار ديا ہے كہ كسى اجنبى يعنى ايسى عورت سے جس سے آدمى كى رشتہ دارى نہ ہو اور نہ ہى كوئى نسب نامہ ہو سے شادى كرنا مستحب ہے، اور اس كى كئى ايك علتيں بيان كى ہيں:
اول:
اولاد نجيب ہو گى، يعنى اس كى صفات اچھى ہونگى اور اس كا بدن قوى ہوگا، كيونكہ وہ اپنے چچاؤں اور ماموؤں كے اوصاف نہيں لےگا.
دوم:
ان كے مابين عليحدگى كا خدشہ جاتا رہے گا، كيونكہ عليحدگى ميں قطع رحمى ہوتى ہے.
الانصاف ميں درج ہے:
" دين والى اور زيادہ بچے جننے والى اور كنوارى و حسب و نسب والى اجنبى عورت اختيار كرنا مستحب ہے " انتہى
ديكھيں: الانصاف ( 8 / 16 ).
اور مطالب اولى النھى ميں درج ہے:
" اجنبى عورت ہو " كيونكہ اس كى اولاد نجيب ہو گا، اور اس ليے بھى كہ عليحدگى كا خدشہ ختم ہو جائيگا، كيونكہ رشتہ دار ہونے كى وجہ سے جب عليحدگى ہو تو يہ قطع رحمى كا باعث بنےگا جو كہ حرام ہے.
اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: اجنبى اور غير رشتہ دار عورتيں زيادہ نجيب اولاد پيدا كرتى ہيں، اور چچا كى بيٹياں زيادہ صبر كرنے والياں ہوتى ہيں " انتہى
ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 5 / 9 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ المنھاج ميں كہتے ہيں:
" ديندار نسب والى جو كہ رشتہ دار نہ ہو اور كنوارى لڑكى اختيار كرنا مستحب ہے "
اور جلال المحلى اس كى شرح ميں كہتے ہيں:
" ( اس كى قريبى رشتہ دار نہ ہو ) يعنى وہ اس سے اجنبى ہو يا پھر دور كى رشتہ دار ہو... اور دور كى رشتہ دار كسى اجنبى عورت سے زيادہ بہتر ہے " انتہى
ديكھيں: شرح المحلى مع حاشيۃ قليوبى و عميرۃ ( 3 / 208 ).
آپ كا خيال ہے كہ اس مسئلہ ميں كوئى نص نہيں ہے ليكن انم صالحت كى بنا پر يہ فقھاء كا اجتھاد ہے، اور يہ چيز اشخاص اور رشتہ دارى كے اعتبار سے ايك دوسرے ميں مختلف ہوگى، ہو سكتا ہے كوئى شخص يہ رائے ركھے كہ اس كا رشتہ دار لڑكى سے شادى كرنے ميں ہى اس عورت اور اس كے خاندان كى حفاظت ہے، يا پھر وہ لڑكى بااخلاق بھى ہو سكتى ہے.
اصل يہى ہے كہ يہ نكاح جائز ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى تو زينب بنت جحش رضى اللہ تعالى عنہا سے شادى كى جو كہ ان كى پھوپھى كى بيٹى تھيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى بيٹى زينب رضى اللہ تعالى عنہا كى شادى ابو العاص سے كى جو زينب كى خالہ كے بيٹے تھے، اور علي رضى اللہ تعالى عنہ نے فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے شادى كى اور على فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا كے والد كے چچا كے بيٹے تھے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے فقھاء كى علت يعنى بچہ نجيب ہوگا، اور قطع رحمى كا خدشہ ہے بيان كرنے كے بعد كہتے ہيں:
" انہوں نے جو كہا ہے وہ صحيح ہے، ليكن جب رشتہ داروں ميں كوئى ايسى لڑكى ہو جو دوسرے اعتبارات ( يعنى دين اور حسب و نسب اور جمال ) ميں اس سے بہتر ہو تو يہ افضل ہو گى، اور جب دونوں برابر ہوں تو پھر اجنبى اولى اور افضل ہے.
اور اس ميں يہ بھى ہے كہ: اگر چچا كى بيٹى ايك دين والى اور اخلاق كى مالك عورت ہو، اور اس شخص كے حالات اور امكانات نرمى و معاونت كے محتاج ہوں تو بلاشك اس ميں بہت بڑى مصلحت ہے.
اس ليے انسان اس معاملہ ميں مصلحت كو مدنظر ركھے كيونكہ مسئلہ ميں كوئى ايسى نص نہيں جس كو ليا جائے، اسى ليے اسے اس پر عمل كرنا چاہيے جس ميں زيادہ مصلحت ديكھتا ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 123 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
رشتہ داروں ميں شادى كرنے كرے متعلق كيا رائے ہے، اور كيا ايسا كرنا اولاد كو اپاہچ كرنے كا باعث بنتا ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" كوئى ايسى حديث نہيں ملتى جو رشتہ داروں ميں شادى كرنے سے روكتى ہو، اور جس سے يہ علم ہو كہ رشتہ داروں ميں شادى كرنا اپاہچ اولاد پيدا ہونے كا باعث بنتا ہے، بلكہ يہ سب كچھ تو اللہ سبحانہ و تعالى كى قضا و قدر سے ہوتا ہے، نہ كہ رشتہ داروں ميں شادى كرنے كے باعث جيسا كہ لوگوں ميں مشہور ہو چكا ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 13 ).
واللہ اعلم .