سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

اگر كسى كے عقيدے كا علم نہ ہو كہ وہ صوفى ہے يا شيعہ تو كيا اس كے پيچھے نماز ادا كر لى جائے ؟

72441

تاریخ اشاعت : 21-02-2007

مشاہدات : 7889

سوال

ميں نماز جمعہ جماعت كے ساتھ ادا نہيں كرتا، مجھے كسى دوسرے ملك ميں بھيجا گيا ہے جہاں مسلمان بہت كم ہيں، اور ان ميں شيعہ اور صوفى بھى ہيں، مجھے امام كى حالت كا علم نہيں كہ آيا وہ اہل سنت سے تعلق ركھتا ہے، يا نہيں، ميرا ان كے ساتھ نماز ادا نہ كرنے كا حكم كيا ہے، يہ علم ميں رہے كہ مسجد بھى دور ہے، اور مجھے اذان بھى سنائى نہيں ديتى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اذان سننے والے شخص پر نماز باجماعت ادا كرنا فرض ہے، اگر آپ كا گھر مسجد سے اتنا دور ہے كہ فضاء ميں خاموشى ہونے كى صورت ميں لاؤڈ سپيكر كے بغير اذان سنائى نہيں ديتى تو آپ پر مسجد ميں نماز باجماعت كے ليے حاضر ہونا واجب نہيں.

اس كى تقصيل سوال نمبر ( 21969 ) اور ( 20655 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے.

رہا نماز جمعہ كا مسئلہ تو اس كے متعلق علماء كرام متفق ہيں كہ بستى ميں بسنے والے مقيم شخص پر نماز جمعہ ادا كرنا واجب ہے، چاہے وہ اذان سنے يا نہ سنے، شہر كى آبادى كے كنارے جتنى بھى دور ہو.

اس كى مزيد تفصيل سوال نمبر ( 39054 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، اس كا مطالعہ كريں.

دوم:

جب ظاہر ميں وہ امام مسلمان ہو تو اس كے پيچھے نماز جمعہ اور نماز باجماعت صرف اس احتمال كى بنا پر ترك كرنا جائز نہيں كہ وہ شيعہ ہے يا صوفى، ليكن اگر نماز جمعہ اور نماز جماعت ـ بغير كسى فتنہ و فساد كے ـ كسى اور كے پيچھے جو اس سے افضل ہو اور اس كا عقيدہ اور منھج صحيح ہو تو ايسا كرنا افضل ہے.

اصل يہى ہے كہ مسلمان شخص كے متعلق حسن ظن ركھنا چاہيے، اور اس كے دين بغير كسى دليل كے جرح قدح نہيں كرنى چاہيے، جيسا كہ راجح قول يہ ہے كہ جس شخص پر اسلام كا حكم لگايا جائے اس كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح ہے، جب تك وہ كسى كفريہ كام كا ا رتكاب نہ كرے، مثلا تحريف قرآن كا عقيدہ ركھنا، يا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كى تكفير كرنا، يا مردوں سے مانگنا، اور ان سے مدد طلب كرنا، ايسے شخص كے پيچھے نماز ادا نہيں كى جائيگى.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى سے مرازقہ كے پيچھے نماز ادا كرنے اور ان كى بدعات كے متعلق دريافت كيا گيا؟

تو ان كا جواب تھا:

" آدمى كے ليے كسى ايسے شخص كے پيچھے نماز پنجگانہ اور جمعہ ادا كرنا جائز ہے جس سے نہ تو كسى بدعت اور نہ ہى فسق معلوم ہو، اس پر آئمہ اربعہ اور دوسرے مسلمان علماء كا اتفاق ہے، اقتدا اور پيروى كى شرط ميں يہ شامل نہيں كہ مقتدى اپنے امام كے اعتقاد كو جانتا ہو، اور نہ ہى وہ اس كا امتحان لے ہوئے كہے كہ تيرا عقيدہ كيا ہے ؟

بلكہ مستور الحال شخص كے پيچھے نماز ادا كرے، اور اگر وہ كسى ايسے شخص كے پيچھے نماز ادا كرتا ہے جس كا فسق يا بدعتى ہونا معلوم ہو، تو اس كى نماز صحيح ہونے ميں امام احمد اور امام مالك كے مذہب ميں دو قول مشہور قول ہيں، اور امام شافعى اور ابو حنيفہ صحيح كہتے ہيں.

اور اگر مقتدى كو علم ہو كہ امام بدعتى ہے، اور وہ اپنى بدعت كى دعوت ديتا ہے، يا وہ فاسق ہے اور اس كا فسق ظاہر ہے، اور وہ مستقل امام ہے جس كے بغير نماز پڑھنا ممكن نہيں، مثلا جمعہ اور عيدين كى امامت وہى كرواتا ہے، اور عرفات ميں نماز حج وغيرہ كا بھى امام وہى ہے، تو عام سلف اور خلف علماء كے ہاں مقتدى اس كے پيچھے نماز ادا كرے گا، امام شافعى، امام احمد امام ابو حنيفہ وغيرہ كا مذہب يہى ہے.

اسى ليے عقائد ميں ان كا كہنا ہے:

جمعہ اور عيد كى نماز ہر نيك يا فاجر امام كے پيچھے نماز پڑھےگا، اور اسى طرح اگر كسى بستى ميں صرف ايك ہى امام ہو تو اس كے پيچھے نماز باجماعت ادا كى جائيگى، كيونكہ نماز باجماعت ادا كرنا اكيلے نماز ادا كرنے سے افضل ہے، چاہے امام فاسق ہى ہو، جمہور علماء كرام امام احمد بن حنبل اور امام شافعى رحمہم اللہ وغيرہ كا مذہب يہى ہے.

بلكہ امام احمد كے ظاہر مذہب ميں نماز باجماعت ادا كرنا فرض عين ہے اور امام احمد وغيرہ كے ہاں جس نے فاجر امام كے پيچھے نماز جمعہ اور نماز باجماعت ترك كى وہ بدعتى ہے.

صحيح يہى ہے كہ وہ نماز ادا كرے گا اور اسے دھرائے گا نہيں، كيونكہ صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہ نماز جمعہ اور نماز باجماعت فاجر قسم كے اماموں سے پيچھے ادا كرتے اور اسے لوٹاتے نہيں تھے، جيسا كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما حجاج كے پيچھے، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ وغيرہ وليد بن عقبہ جو كہ شراب نوش تھا كے پيچھے نماز ادا كرتے تھے.

فاسق اور مبتدع كى فى نفسہ نماز صحيح ہے، چنانچہ جب اس كے پيچھے مقتدى نماز ادا كرے تو اس كى نماز باطل نہيں، ليكن جس نے اس كے پيچھے نماز ادا كرنى مكروہ سمجھى وہ اس ليے كہ نيكى كا حكم دينا، اور برائى سے منع كرنا واجب ہے، اس ميں يہ بھى ہے كہ جو بدعت يا فجور ظاہر كرتا ہو اسے مسلمانوں كى امامت نہيں دينى چاہيے، كيونكہ وہ تعزير اور سزا كا مستحق ہے حتى كہ وہ اس سے توبہ كر لے.

اور اگر توبہ كرنے تك اس سے بائيكاٹ كرنا ممكن ہو تو يہ بہتر ہے، اور اگر كچھ لوگ جب اس كے پيچھے نماز ادا كرنا ترك كر ديں، اور كسى دوسرے كے پيچھے نماز پڑھيں تو يہ اس پر اثر انداز ہو گا حتى كہ وہ توبہ كر لے يا پھر اسے معزول كر ديا جائے، يا لوگ اس طرح كے گناہ سے باز آجائيں، تو اس طرح كا شخص اگر اس كے پيچھے نماز پڑھنا ترك كر دے تو اس ميں مصلحت ہے، اور اس كى نماز اور جمعہ نہيں رہنا چاہيے.

ليكن اگر اس كے پيچھے نماز ترك كرنے سے مقتدى كا نماز جمعہ اور نماز باجماعت رہ جائے تو يہاں ان كے پيچھے نماز ترك نہيں كى جائيگى، صرف اس بدعتى كے پيچھے نماز ترك كى جائے جو صحابہ كرام كا مخالف ہے " انتہى

ماخوذ از: مجموع الفتاوى ( 23 / 351 - 356 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر ذبح كرنے والے كے عقيدے كا علم نہ ہو تو اس كا ذبح كيا ہوا گوشت كھانا اور ايسے شخص كے پيچھے نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے ؟

علماء كا جواب تھا:

" اگر وہ ظاہرا مسلمان ہو، اور عقيدہ كے اعتبار سے مجھول ہو، اور اس كے متعلق يہ علم نہ ہو كہ اس كے عقيدہ ميں انحراف پايا جاتا ہے، تو اس كے پيچھے نماز ادا كرنا اور اس كا ذبح كيا ہوا گوشت كھانا صحيح ہے" انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 365 ).

اور فتاوى ميں يہ بھى ہے كہ:

" اور بدعتى كے پيچھے نماز ادا كرنے كے متعلق عرض يہ ہے كہ: اگر تو ان كى بدعت شركيہ ہو مثلا غير اللہ كو پكارنا، اور غير اللہ كے ليے نذر و نياز دينا اور اپنے مشائخ اور پيروں كے متعلق كمال علم كا ايسا اعتقاد ركھنا جو اللہ كے علاوہ كسى اور ميں نہيں، يا غلم غيب كا جاننا، يا جہان و كون ميں اثرا انداز ہونا، تو ايسے لوگوں كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح نہيں ہے.

اور اگر ان كى بدعات شركيہ نہيں، مثلا ايسا ذكر كرنا جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، ليكن يہ ذكر اجتماعى طور پر جھوم جھوم كر كرنا، تو ان كے پيچھے نماز صحيح ہے، ليكن مسلمان شخص كو كوشش كرنى چاہيے كہ وہ اپنى نماز كسى بدعتى امام كے پيچھے نہيں بلكہ غير بدعتى كے پيچھے ادا كرے، تا كہ زيادہ اجروثواب كا باعث ہو، اور منكر سے دور رہے" انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 353 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

بدعات پر عمل كرنے والے علاقے ميں مقيم شخص كے متعلق كيا حكم ہے كيا اس كے ان كے ساتھ نماز جمعہ اور نماز باجماعت ادا كرنا صحيح ہے ؟

يا كہ وہ انفرادى طور پر نماز ادا كرے، يا اس سے نماز جمعہ ساقط ہو جائيگا ؟

اور اگر كسى علاقے ميں اہل سنت كے باراور اگر كسى علاقے ميں اہل سنت كے بارہ افراد سے كم تعداد ميں لوگ بستے ہوں تو كيا ان كے ليے نماز جمعہ ادا كرنا صحيح ہے يا نہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" ہر نيك يا فاجر امام كے پيچھے نماز جمعہ ادا كرنا واجب ہے، اگر نماز جمعہ پڑھانے والے امام كى بدعت ايسى نہ ہو جو اسے اسلام سے خارج كر دے تو اس كے پيچھے نماز ادا كى جائيگى.

امام ابو جعفر طحاوى رحمہ اللہ عقيدہ طحاويہ ميں كہتے ہيں:

" ہم اہل قبلہ جو اسى پر فوت ہو ميں سے ہر نيك اور فاجر كے پيچھے نماز ادا كرنا جائز سمجھتے ہيں " انتہى... "

پھر شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كى سابقہ كلام نقل كر كے يہ كہا ہے كہ:

" اور رہا دوسرا سوال: تو اس كا جواب يہ ہے كہ: اس مسئلہ ميں اہل علم كے مابين اختلاف مشہور ہے، اور اس ميں صحيح يہ ہے كہ تين اور تين سے زيادہ افراد جب وہ كسى بستى كے رہائشى ہوں جہاں نماز جمعہ نہيں ہوتى تو ان كے ليے نماز جمعہ ادا كرنا جائز ہے.

رہا مسئلہ نماز جمعہ كى ادائيگى كے ليے چاليس يا بارہ يا اس سے كم افراد كى شرط لگانا تو ہمارے علم ميں اس كى كوئى دليل نہيں، بلكہ واجب يہ ہے كہ كم از كم تين افراد ہوں تو نماز باجماعت ادا كى جائيگى، اہل علم كى ايك جماعت كا قول يہى ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى نے بھى اسے اختيار كيا ہے، اور جيسا كہ بيان ہو چكا ہے صحيح بھى يہى ہى" انتہى

ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 4 / 303 ).

اس علاقے ميں موجود كيمونٹى كے ساتھ دعوت الى اللہ ميں تعاون كرنا چاہيے، اور ان كے عقائد كى تصحيح اور اصلاح كرنى چاہيے، اور ان ميں سے گمراہ كى راہنمائى حكمت اور بہتر وعظ سے كرنى چاہيے، اور كوشش يہ كرنى چاہيے ان ميں سب سے زيادہ متقى اور افضل شخص كو امام بنايا جائے.

ہم اللہ تعالى سے اپنے اور آپ كے ليے سيدھى راہ كى توفيق طلب كرتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب