سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کسی معین شخص کیلئے جنت یا جہنم کی گواہی دینا

731

تاریخ اشاعت : 03-01-2015

مشاہدات : 13630

سوال

سوال: میں نے کچھ مشایخ کا بیان سنا، جن کا کہنا ہے کہ وہ سلفی ہیں، اور وہ کہتے ہیں کہ: "میری ماں کافر تھی، اور مجھے پتا ہے کہ وہ جہنم میں جائے گی" انکا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کسی شخص کے بارے میں تاکید کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ جہنم میں جائے گا، تو کیا ایسی بات کرنا جائز ہے؟ اور کیا ہم کسی بھی شخص کے بارے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے دین کی وجہ سے جہنم میں جائے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اہل سنت والجماعت کے ہاں یہ اصول ہے کہ: کسی معین شخص کیلئے جنت یا جہنم  کی گواہی عقیدے سے تعلق رکھنے والے مسائل میں سے ہے، جو کہ کتاب و سنت کی دلیل  سے ہی اخذ کیے جا سکتے ہیں، اس بارے میں عقل و قیاس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

چنانچہ جس کے بارے میں کتاب و سنت میں جنت یا جہنم میں جانے کی شہادت موجود ہے ؛ تو ہم بھی اس کے بارے میں وہی گواہی دیں گے جو کتاب و سنت میں موجود ہے،  اس کے ساتھ ساتھ ہم  نیک آدمی کیلئے جنت  کی امید، اور برے آدمی کیلئے جہنم  کا اندیشہ رکھتے ہیں، تاہم خاتمہ کس چیز پر ہوگا، اسکا علم اللہ تعالی کو ہے۔

کسی کے جنتی یا جہنمی ہونے کے بارے میں گواہی دو قسم کی ہے:

1- بغیر تعین کے گواہی: یعنی جنت کے مستحق افراد کے اوصاف بیان کیے جائیں، مثلاً آپ کہیں:  "جو شخص بھی شرک اکبر  کا مرتکب ہوگا تو وہ کافر اور دین کے دائرے سے خارج ہو جائے گا،  اور ایسا شخص جہنم میں جائے گا"
اسی طرح یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ: "جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور ثواب کی امید سے رکھے تو اسکے گذشتہ اور آئندہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں، اور حج مبرور کی جزا صرف جنت ہی ہے۔ اس طرح کی مثالیں کتاب وسنت میں کثرت کے ساتھ موجود ہیں"

چنانچہ اگر کوئی شخص یہ پوچھے کہ :  کیا غیر اللہ کو حاجت روائی کیلئے پکارنے  والا جنت میں جائے گا یا جہنم میں؟ تو ہم کہیں گے ایسا شخص کافر  اور جہنمی ہے؛ بشرطیکہ اس پر حجت قائم ہوجائے، پھر بھی اسی پر اڑا رہے، اور انہی نظریات پر مر جائے۔

اسی طرح اگر کہا جائے کہ:  جو شخص بغیر کسی بے ہودگی ، اور گناہ کے حج کرے ، اور حج کے فورا بعد فوت ہوجائے تو اسکا انجام کیا ہوگا؟ ہم اسے کہیں گے کہ وہ جنت میں جائے گا،  ایسے ہی جس شخص  کادنیا میں آخری کلام "لا الہ الا اللہ" ہواتو وہ جنت میں جائے گا، اسی طرح کی اور بھی نصوص ہیں۔
ان تمام صورتوں میں اوصاف بیان کیے گیے ہیں تعین کے ساتھ افراد ذکر نہیں کیے گئے۔

2- کسی کے بارے میں نام لیکر گواہی دینا:  مثلاً کسی شخص کی ذات یا نام لیکر یہ کہنا کہ وہ جنتی یا جہنمی ہے، تو اس طرح سے کہنا صرف اور صرف   اس کے حق میں جائز ہوگا جس کے بارے میں اللہ تعالی ، یا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کہ  فلاں جنت میں جائے گا، اور فلاں جہنم میں۔

چنانچہ جن   لوگوں کے بارے میں تعین کیساتھ اللہ یا اسکے رسول نے  گواہی دی کہ وہ جنتی ہیں تو وہ قطعا جنتی ہیں جیسے کہ عشرہ مبشرہ صحابہ کرام، جن میں سر ِفہرست خلفائے راشدین ابو بکر ، عمر، عثمان، اور علی رضی اللہ عنہ ہیں۔

اور جن لوگوں کے بارے میں شریعت نے تعین کیساتھ گواہی دی ہے کہ  وہ جہنمی ہیں تو وہ پکے جہنمی ہیں ان میں  ابو لہب، ابو لہب کی بیوی، ابو طالب، عمرو بن لحی وغیرہ شامل ہیں۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہاللہ ہمیں اہل جنت  میں شامل فرما لے، اللہ تعالی  ہمارے نبی پر رحمتیں نازل فرمائے۔.

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد