الحمد للہ.
اس ميں كوئى شك نہيں كہ يہ حالت ايسى ہے كہ اس نے ايمان پر كفر كو اختيار كر ليا ہے، اور وہ اسلام ميں باقى نہيں رہنا چاہتى، بلكہ اسلام اور اسلامى شعائر ميں طعن و تشنيع كر رہى ہے، اور اسلامى تعاليم كى مخالفت كر رہى ہے، تو اس حالت ميں وہ مرتدہ اور كافرہ ہوگى اسے اپنے عقد ميں ركھنا جائز نہيں.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم كافروں كى عصمتوں كو نہ روكو .
يعنى جب بيوى كافر ہو تو اس كے ليے اسے اپنى عصمت ميں ركھنا جائز نہيں، اس ليے اسے اپنى بيوى كو وعظ و نصيحت كرنى چاہيے، اور اس پر حجت قائم كردينى چاہيے اور پھر اسے چھوڑ دے.
اور اگر وہ كسى ايسے علاقے ميں رہتا ہے جہاں اسلامى حكمرانى اور شرعى عدالتيں ہيں تو وہ اس معاملے كو قاضى كے پاس شرعى عدالت ميں لے جائے تا كہ وہ اس سے توبہ كرنے كا مطالبہ كرے، اگر تو وہ توبہ كر ليتى ہے تو ٹھيك وگرنہ اس ميں اللہ تعالى كا حكم نافذ كيا جائے، اور وہ حكم قتل ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو اپنا دين بدل دے اسے قتل كردو"
اور اگر وہ اس كى طاقت نہيں ركھتا اور اس كے ملك ميں اسلامى حكومت نہيں اور نہ ہى شرعى عدالتيں ہيں، تو ميں يہ نہيں كہتا كہ وہ اسے مكمل طور پر چھوڑ دے، اور اس كے ليے اس كى صريح كفر كرنے كے بعد اس سے معاشرت كرنا جائز نہيں ہے.